نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی ایک روپے 56 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی ہے۔نیپرا کے مطابق بجلی کے نرخوں میں اضافے سے صارفین پر 14 ارب 50 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔نیپرا کا کہنا ہے کہ اضافہ اکتوبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے جس میں پانی سے 25.48 فیصد بجلی پیدا کی گئی، مقامی گیس سے 12.17 فیصد، درآمدی ایل این جی سے 25.41 فیصد بجلی پیدا کی گئی جبکہ اکتوبر میں ہائی سپیڈ ڈیزل سے بجلی پیدا نہیں کی گئی۔نیپرا حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ کمپنیوں کی نقصانات کے حوالے سے کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔چیئرمین نیپرا کا کہنا ہے کہ جتنا زوربجلی پیداکرنے پرلگایا گیااتنا اس کی ترسیل پہ لگاتے تومسائل نہ ہوتے، کے الیکڑک پلانٹ لگارہاہے مگراین ٹی ڈی سی بجلی کی ترسیل کا معاہدہ کرنے کو تیار نہیں۔
ان کا کہناہے کہ ہم ہرطرح سے صارفین کو دبا رہے ہیں کہ سانس ہی نہ لے سکیں، صارفین نے 960 میگاواٹ کے سولر پینل لگالئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو صارفین برداشت کرسکتے ہیں وہ سسٹم سے نکل رہے ہیں، بجلی صارفین اب سولر پینلزلگا رہے ہیں،چیئرمین نیپرا کاکہناہے کہ جب سے آیا ہوں یہی دیکھ رہا ہوں کہ بجلی کی قیمت بڑھ رہی ہے، کبھی تو ایسا ہوکہ سی پی پی اے بجلی کی قیمت میں کمی کی درخواست کرے۔ملک میں بجلی کی قیمت میں اضافہ ہر دوسرے ماہ دیکھنے کو مل رہا ہے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں جبکہ بجلی کا بحران بھی اپنی جگہ موجود ہے، عوام پر سب سے زیادہ بوجھ ڈالاجارہا ہے۔ اسی طرح گیس کی صورتحال ہے گیس کی قیمتوں میں اضافہ تو کردیا جاتا ہے مگر صارفین گیس سے محروم ہیں۔ بلوچستان میں گیس بحران تو ایک گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے، دارالخلافہ کوئٹہ میں گیس ناپید ہے جبکہ قلات، لورالائی، خضدار، منگوچر، سمیت دیگر سرد علاقوں میں اس شدید سردی کے دوران گھریلوصارفین شدید مشکلات سے دوچار ہیں،باوجود اس کہ گیس بلوچستان سے نکلتی ہے مگر یہاں کے عوام گیس سے محروم ہیں۔ پی ٹی آئی کی اس ڈیڑھ سالہ دورحکومت میں عوام پر نا قا بل برداشت مہنگائی کا بوجھ ڈالاگیا ہے۔
بنیادی سہولیات سے لیکر روز مرہ کی اشیاء تک عوام کی پہنچ سے دور ہوتے جارہے ہیں۔اسی طرح گیس کی عدم فراہمی کے باعث غریب عوام لکڑیاں جلاکر شدید سردی سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔موجودہ حکومت نے عوام سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے مگر صورتحال میں بہتری آنے کی بجائے ہر نیا روز عوام کیلئے نئی مشکلات لے کر آتاہے۔ حکومت نے ایک بار پھر 2020ء کو خوشحالی کا سال قراردیا ہے مگر جس طرح سے قرضوں کا بوجھ اس وقت موجود ہے اس سے واضح ہے کہ مہنگائی میں کمی نہیں آئے گی بلکہ نرخوں میں آگے جاکر مزید اضافہ ہو گا کیونکہ گزشتہ اور موجودہ حکومتوں نے اتنے قرضے لئے ہیں کہ جن کا شرح سود بہت زیادہ ہے اور یہ عوام کو نچوڑ کر ہی نکالے جائینگے جس طر ح ہر چیز پر ٹیکس لگائی جارہی ہے اور بنیادی سہولیات بجلی، گیس کے نرخوں میں آئے دن اضافہ کیاجارہا ہے اس کا بوجھ عوام پرپڑا ہے۔ اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے بلکہ خدشہ ہے کہ مزید ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور اس طرح سے عوام مزید مہنگائی کی چکی میں پستے جائینگے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ غریب عوام جو وقت کی روٹی کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں ان کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے فوری اقدامات اٹھائے تاکہ نیا سال ان کیلئے مزیدمصیبتوں کا سبب نہ بنے۔