|

وقتِ اشاعت :   January 3 – 2020

نیشنل ہائی ویز موٹروے پولیس کی جانب سے ایک روڈ سیفٹی سیمینارکے دوران نیشنل ہائی ویز موٹروے پولیس کے حکام نے اپنے خطاب کے دوران اس بات کا خود اعتراف کیاکہ ہر سال بلو چستان میں 6000 کے قریب لوگ حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں اور مزید لوگ جو کہ بعد میں علاج کے دوران مر جاتے ہیں ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ گزشتہ سال کی نسبت اس سال 2019 میں روڈحادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں 20 فیصد تک اضافہ بھی ہوا ہے۔موٹروے پولیس حکام نے ٹرانسپورٹر ز کو گورنمنٹ آف پاکستان کی جانب سے ترمیم شدہ رقم یعنی چالان کے نئے جرمانوں کے بارے میں بریف کیا۔

انہوں نے ڈرائیور ز اور مالکان کوبتایا کہ انسانی جان کی قدر کریں ایک کوچ کے اندر پچاس لوگ سوار ہوتے ہیں اور ڈرائیور ان تمام سواریوں کی جان و مال کا امین ہوتا ہے،اس کی غفلت سے کئی گھروں میں اندھیراہو سکتا ہے لہٰذا انسانی جان کی قدر کریں جبکہ اس بات پر بھی زور دیاکہ تمام ڈرائیورز کو ڈرائیونگ کرنے سے پہلے قانون اور روڈ سیفٹی کی تعلیم لازمی حاصل کرنی چاہئے اور مزید یہ کہ گورنمنٹ کی طرف سے جرمانوں میں جو اضافہ کیا گیا ہے اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے قانون پر عملدرآمدکو یقینی بنائیں تاکہ لوگوں کے جان ومال کی حفاظت ہو اور حادثات سے بچا جا سکے۔

بعد ازاں نیشنل ہائی ویز موٹروے پولیس کے افسران نے تمام پی ایس وی یونین کے عہدیداران اور مالکان سے ان کے تحفظات کے بارے میں پوچھا جس میں سے بیشتر جن کا تعلق نیشنل پولیس ہائی موٹروے پولیس سے تھا ان کو تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ایسے تقریبات کو بامقصد بنانے کیلئے سب سے بڑی ذمہ داری موٹروے پولیس پر عائد ہوتی ہے چونکہ بلوچستان کی شاہراہوں پر چلنے والی گاڑیوں کے ڈرائیورز صرف تجربہ کار ہوتے ہیں مگر باقاعدہ ٹریننگ یافتہ نہیں ہوتے اور نہ ہی ڈرائیونگ قوانین سمیت روڈ سیفٹی کے حوالے سے آگاہی رکھتے ہیں جس کے باعث بہت سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔

اگر موٹروے پولیس ان اناڑی ڈرائیورز کے خلاف کارروائی شروع کرے تو بلوچستان کی شاہراہوں پر رونما ہونے والے حادثات میں کمی آئے گی مگر بدقسمتی سے اس حوالے سے حکومتی سطح پر توجہ نہیں دی جاتی اس لئے ڈرائیورز پر ساراملبہ گرانا زیادتی ہوگی۔اسی طرح بلوچستان کی شاہراہوں پر نظر دوڑائی جائے یہ دورویہ نہیں جس کی وجہ سے بڑے بڑے حادثات رونما ہوتے ہیں،بارہا اس جانب توجہ دلائی گئی مگرعملدرآمد نہیں ہوتا،جب کوئی بڑا حادثہ رونما ہوتا ہے پھر حکام دو رویہ شاہراہ بنانے کیلئے وقتی تسلی دیتے ہیں۔جبکہ حادثات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اب تک ہزاروں قیمتی جانیں انہی روڈ حادثات میں جاچکی ہیں۔

بلوچستان میں چلنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور طبقہ کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے جو گھر کے کفیل ہوتے ہیں کم عمری میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے کنڈیکٹر اور ڈرائیور بن جاتے ہیں مگر انہیں مکمل ٹریننگ دینے کی ذمہ داری اداروں کی ہوتی ہے،بدقسمتی سے ہمارے ہاں ادارے سنجیدگی سے اپنے شعبہ کو نہیں لیتے اور ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء چند روپوں کے عوض کردی جاتی ہے پھر کس طرح یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور قانون کی پابندی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ روڈ سیفٹی کا بہتر انداز میں خیال کرینگے۔

لہٰذا سب سے پہلے شاہراہوں کو دو رویہ بنایا جائے تاکہ حادثات رونما نہ ہوں، دوسری اہم بات ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کے حوالے سے باقاعدہ ٹریننگ کو لازمی قرار دیکر لائسنس فراہم کیاجائے تب جاکر روڈحادثات میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔دوسری اہم بات بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہے مگر طویل شاہراہوں کے قریب بہترین اسپتال طبی سہولیات کے حوالے سے موجود نہیں اگر کوئی حادثہ رونما ہوجاتا ہے تو انہیں علاج کیلئے کراچی منتقل کردیا جاتا ہے۔

اس طویل مسافت میں زخمی افراد راستے میں ہی دم توڑجاتے ہیں حالانکہ محکمہ صحت میں بہتری لانے کیلئے ایمرجنسی لگائی گئی ہے مگر صورتحال میں اب تک کوئی بہتری نہیں آئی، جب دارالخلافہ کوئٹہ میں علاج معالجے کیلئے غریب عوام کوکوئی خاص سہولیات میسر نہیں پھر دیگر اضلاع کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں صحت کے حوالے سے کیا وسائل اسپتالوں میں دستیاب ہونگے۔ بہرحال یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ماضی میں جو کوتاہیاں دیگرحکومتوں سے ہوئی ہیں ان کو نہ دہراتے ہوئے جنگی بنیادوں پر اس اہم مسئلہ کی جانب بھی توجہ دے تاکہ شاہراہوں پرحادثات کے سبب زخمی افراد کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرکے ان کی جانوں کو بروقت بچایا جاسکے۔ جب تک اس حوالے سے مکمل ماسٹر پلان ترتیب نہیں دیاجاتا بلوچستان کے غریب عوام شاہراہوں پر حادثات کے بھینٹ چڑھتے رہینگے۔