|

وقتِ اشاعت :   January 4 – 2020

کوئٹہ ترقیاتی پیکج جس میں 15ارب روپے کے گیارہ منصوبے شامل ہیں، پیکچ کے لئے پانچ ارب روپے سابق وزیراعظم، پانچ ارب روپے سابق وزیراعلیٰ کی جانب سے اعلان کردہ ہیں جبکہ پانچ ارب روپے صوبائی پی ایس ڈی پی میں مختص کئے گئے ہیں۔علاوہ ازیں دس ارب روپے کی لاگت سے کوئٹہ ایکسپریس وے کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا ہے جس کے لئے پانچ ارب روپے وفاقی حکومت اور پانچ ارب روپے صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔ پانچ منصوبوں جن میں سریاب روڈ کی توسیع، سریاب کے علاقے میں 120کلومیٹر گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر، جوائنٹ روڈ کی توسیع، سبزل روڈ کی توسیع اور ایئر پورٹ نواں کلی لنک روڈ کی تعمیر شامل ہے،پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے جبکہ گوالمنڈی چوک کی توسیع، جی پی او چوک پر مجوزہ بائی پاس یا فلائی اوور کی تعمیر، جوائنٹ روڈ کی توسیع کے فیز ٹو، شہر کے مختلف علاقوں میں نکاسی آب اور ریلوے اسٹیشن پر فوڈ سٹریٹ کے قیام کے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جانا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے متعدد بار کوئٹہ پیکج کے حوالے سے خود اس بات کا اظہار کیا ہے کہ تعمیراتی منصوبہ بندی میں پائی جانے والی خامیوں کے باعث بہت سے ترقیاتی منصوبے یا تو نامکمل رہ جاتے ہیں یا پھر ان کی افادیت نہیں رہتی جس سے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے لہٰذا تما م تعمیراتی محکمے اور ادارے کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر عملدرآمد سے قبل جامع منصوبہ بندی کریں اور منصوبے ٹھیکہ دینے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی ضروریات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر بنائے جائیں جبکہ کوئٹہ ترقیاتی پیکج میں شامل سڑکوں کی توسیع کے ان منصوبوں پر جن پر تاحال عملدرآمد کا آغاز نہیں ہوا ہے کے لئے متبادل تجاویز کا جائزہ بھی لیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے سریاب روڈ کو دو مقامات سے مشرقی اور مغربی بائی پاس سے منسلک کرنے کے لئے لنک روڈ تعمیر کرنے کی ہدایت بھی کی ہے تاکہ سریاب روڈ پر ٹریفک کے دباؤ میں کمی آسکے۔ وزیراعلیٰ نے اس بات کی بھی ہدایت کی تھی کہ سڑکوں کی تعمیر سے پہلے ان علاقوں میں نکاسی آب، پانی اور گیس پائپ لائن کی تنصیب کویقینی بنایاجائے تاکہ دوبارہ سڑکوں کوتوڑنے کی نوبت نہ آئے۔ کوئٹہ ترقیاتی پیکج کا بنیادی مقصد شہر کو دوبارہ خوبصورت بنانا ہے کیونکہ کوئٹہ شہر کی آبادی روزبروز بڑھتی جارہی ہے اسی طرح مسائل گھمبیر ہوتے جارہے ہیں کیونکہ شہر میں بہت زیادہ پُل تعمیر نہیں کئے گئے ہیں جبکہ انڈرپاسز کا تو وجود تک نہیں ہے جس سے ٹریفک کے دباؤ کو کنٹرول کیاجاسکے۔

دوسری جانب شہر میں گاڑیوں کی بھرمار ہے اس وجہ سے چند منٹوں کافاصلہ گھنٹوں میں عوام کو طے کرناپڑتا ہے اگر لنک روڈ، پُل اور انڈرپاسز کو ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کیاجائے تو یقینا ٹریفک کا دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور شہریوں کو سفر کے دوران مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، خاص کراسکول اوردفتری اوقات کار میں ٹریفک کا دباؤ زیادہ رہتا ہے کیونکہ تنگ سڑکیں اور پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں سڑکوں کے درمیان کھڑی کی جاتی ہیں جس سے گھنٹوں تک ٹریفک جام رہتا ہے، اس کا مستقل حل سڑکوں کی توسیع اور خاص کر پارکنگ کی تعمیرہے۔ قدیم گوشت مارکیٹ کو مسمار کرنے کا مقصد یہی تھا کہ یہاں پر پارکنگ پلازہ تعمیر کیا جائے گا مگر تین سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود پارکنگ پلازہ تعمیر نہیں کیا گیا اور اب یہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہے ضروری ہے کہ سرکاری قیمتی اراضی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس اہم مقام پر پارکنگ پلازہ تعمیر کی جائے کیونکہ یہ بالکل شہر کے وسط اور تجارتی مراکز کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

دن کے وقت عوام کا کافی رش یہاں لگارہتا ہے جس سے ٹریفک شدید متاثر رہتا ہے جوپیدل چلنے والوں کیلئے مشکلات کا سبب بنتا ہے لہٰذا اس پارکنگ پلازہ کی تعمیر کو یقینی بنانے کیلئے حکومت ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے۔ دوسرا اہم مسئلہ شہر میں نکاسی آب کا ہے بدقسمتی سے شہر کے اہم علاقے آج بھی سیوریج نظام سے محروم ہیں خاص کر سریاب کے بیشتر علاقوں میں سیوریج لائن موجود نہیں اور یہ شہر کا انتہائی قدیم اور گنجان آبادی والا علاقہ ہے صوبائی حکومت کوئٹہ پیکج میں شامل سریاب کی سڑکوں کی توسیع سمیت نکاسی آب کا مسئلہ حل کرے جو کہ علاقہ مکینوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔