پاکستان نے عراق میں امریکی حملے میں ایرانی فوج کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کے جاں بحق ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال خطے کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ خودمختاری کا احترام اور علاقائی سالمیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصول ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ان اصولوں کی پاسداری کی جانی چاہیے۔پاکستان نے یکطرفہ اقدامات اور طاقت کے استعمال سے گریز پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں تناؤ کم کرنے کے لیے مثبت رابطوں کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ہونے والے امریکی حملے میں ایران کی القدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی جاں بحق ہوگئے ہیں۔امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے بھی حملے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ عراقی شہری آزادی کے لیے گلیوں میں ناچ رہے ہیں اور جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر شکر گزار ہیں۔دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی حملے سے متعلق سوشل میڈیا پر ردعمل میں کہا کہ جنرل سلیمانی پر حملہ کر کے امریکا نے عالمی دہشت گردی کی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اپنی سرکش مہم جوئی کے نتائج کی ذمہ داری امریکا خود اٹھائے گا۔اس سے قبل 30 دسمبر 2019 کو امریکی فورسز نے مغربی عراق میں ایران نواز ملیشیاء حزب اللہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا تھا جس میں 24 ارکان ہلاک ہوگئے تھے۔امریکا کا کہنا تھا کہ یہ حملہ عراقی ملیشیا کی جانب سے کرکوک کی ائیر بیس پر راکٹ حملے کے جواب میں کیا گیا جس میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک اور متعدد امریکی اور عراقی اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملوں کے ردعمل میں سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی تھی۔
اور سفارت خانے کے بیرونی حصے کو آگ لگا دی تھی۔امریکا نے سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا تھا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران کو امریکی سفارت خانے پر حملے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔واضح رہے کہ اس واقعے کے علاوہ بھی امریکا اور ایران کے درمیان طویل عرصے سے کشیدگی جاری ہے جس کی بنیادی وجہ ایران کا جوہری پروگرام ہے۔
امریکا کا مؤقف ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اس کے اور اسرائیل سمیت دیگر اتحادیوں کے لیے خطرہ ہے جبکہ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پُر امن مقاصد کیلئے ہے۔ایران اور امریکہ کے درمیان موجود تناؤ کو جس طرح سے مشرق وسطیٰ کیلئے خطرناک قرار دیاجارہا ہے اسی طرح یہ عالمی امن کیلئے انتہائی بھیانک نتائج برآمد کرے گا۔ماضی میں عراق، شام، افغانستان میں ہونے والی جنگوں نے اسلامی ممالک کے درمیان دوریاں پیدا کی ہیں جس کے باعث مسلم ممالک ایک پیج پر بعض معاملات میں دکھائی نہیں دیتے مگر سب سے اہم بات یہ ہے۔
کہ ایران کے ساتھ امریکی تناؤ برقرار رہنے کے باوجود مغرب کے بڑے ممالک تجارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں اسی طرح بھارت نے بھی سرمایہ کاری کی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ جہاں پر مسلم ممالک کو ایک جگہ ہوکر اپنے ممالک اور خطے کی صورتحال کو بہتر بنانا چاہئے لیکن انہوں نے جنگی صورتحال پیدا کررکھی ہے، دوسری جانب ایران اور امریکہ کے درمیان موجودکشیدگی کبھی بھی شدت اختیار کرسکتی ہے اس سے خاص کر مسلم ممالک ہی متاثر ہونگے اس لئے مسلم ممالک کو سب سے زیادہ فکر مند ہونا چاہئے۔ ایران امریکہ تناؤہو یا سعودی ایران کشیدگی اس پر مسلم ممالک نے ہی کردار ادا کرنا ہوگا وگرنہ بھیانک نتائج مسلم ممالک کو ہی اٹھانے پڑینگے۔