امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی بڑھتی جارہی ہے جبکہ سعودی عرب اور ایران بھی مدِ مقابل دکھائی دیتے ہیں۔یہ بڑھتی کشیدگی خطے اور دنیا کیلئے جہاں خطرناک ثابت ہوسکتی ہے وہیں پاکستان بھی اس جنگ سے شدید متاثر ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران حکومت اورمسلح افواج کے سربراہ نے مختلف ممالک کے دورے کئے تاکہ دونوں مسلم ممالک کے درمیان جنگی ماحول میں کمی آئے کیونکہ اس کے انتہائی بھیانک اثرات پورے خطے پر پڑینگے جبکہ پاکستان براہ راست اس سے متاثر ہوگا۔بہرحال موجودہ کشیدگی پر گزشتہ روز پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے واضح کردیا کہ خطے میں امن خراب کرنے والے کسی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے، جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد خطے کے حالات میں تبدیلی آئی ہے۔
آرمی چیف نے مائیک پومیو سے کہا کہ خطے کے ممالک میں کشیدگی کم ہونی چاہیے،خطے میں امن کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، ہم خطے میں امن چاہتے ہیں مگر ملکی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں ہوگا، بھارتی آرمی چیف دھمکیوں کی بجائے کشمیر میں ظلم و ستم بند کر دیں۔ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی چل رہی ہے، خطے میں مختلف ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہونی چاہئے اور ڈائیلاگ سے آگے بڑھنا چاہیے۔انہوں نے واضح کیا کہ خطے میں امن کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بہت سی افواہیں گردش میں ہیں، جانے مانے لوگ بھی بات کر رہے ہیں، تاہم خطے کی صورت حال میں بہتری کے لیے آرمی چیف کا اہم کردار ہے۔ایرانی جنرل کے قتل کے واقعے کے بعد فارن آفس بھی اپنا بیان جاری کر چکا ہے۔
عوام اور میڈیا سے درخواست ہے مصدقہ ذرائع کی بات پر توجہ دی جائے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ آپ جانتے ہیں مشرق وسطیٰ میں سیکیورٹی کے کیا حالات ہیں، ایران اور سعودی عرب میں کیسی کشیدگی ہے اور اس واقعے سے قبل پاکستان کا کشیدگی کم کرنے میں کیا کرداررہا ہے؟حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں مثبت کوششیں کی ہیں، وزیراعظم عمران خان مختلف ممالک کے دورے پر گئے اس کشیدگی پر بھی بات چیت کی۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف سے بات چیت کی تھی، آرمی چیف نے کہا کہ خطہ خراب حالات سے بہتری کی طرف سے جا رہا ہے، مائیک پومپیونے کہا کہ خطہ حالات بہتر ہونے کے باوجود ابتری کی طرف جا رہا ہے، آرمی چیف نے کہا خطے کے ممالک میں کشیدگی کم ہونی چاہیے، افغان مصالحتی عمل کو خراب کرنے کی کوشش سے اجتناب کرناچاہیے۔انھوں نے کہا کہ ہمارا خطہ چار دہائیوں سے امن کے لیے کوششیں کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت نے جارحیت دکھائی اور ہم نے دو بھارتی جہاز مار گرائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں بہت سی کشیدگیاں ہوئیں حتیٰ کہ 27 فروری کو دونوں ملک جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔ترجمان پاک فوج نے ماضی اور حالیہ صورتحال پر واضح مؤقف دیکر ایک بار پھر پاکستان کی جانب سے امن اور بات چیت پر زور دیا ہے کیونکہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے خطے میں عدم استحکام کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے جبکہ پاکستان کی سرزمین کو کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے پر بھی دوٹوک جواب دیا گیا ہے۔ اس سے قبل عالمی امن کی خاطر پاکستان نے ہر قسم کی قربانی دی اور جس طرح سے افغان جنگ کے دوران پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا شاید ہی کوئی دوسرا ملک اس سے متاثر ہواہو،اس بات کو یقینی بنانا دنیا کی ذمہ داری ہے کہ معاملات بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوں تاکہ خطہ ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں نہ آئے جو کہ کسی کے مفاد میں نہیں۔