|

وقتِ اشاعت :   January 8 – 2020

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جانب سے ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی پر کیے گئے ڈرون حملے کی جوابی کارروائی کرنے پر ایران کے ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی پر قائم ہیں۔غیرملکی خبررساں ادار ے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنبیہہ کی ہے کہ اگر ایران نے فوجی کمانڈر کے قتل کا جوابی حملہ کیا تو بڑی انتقامی کارروائی کی جائے گی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ قاسم سلیمانی امریکیوں پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ انٹیلی جنس رپورٹس جاری کرنے پر غور کریں گے جو ایرانی کمانڈر کے براہ راست قتل کی وجہ بنیں۔ایران کی جانب سے ممکنہ انتقامی کارروائی سے متعلق امریکی صدر نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے، اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو بڑی انتقامی کارروائی ہوگی۔امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایرانی ثقافتی اہداف کو نشانہ بنانے کی دھمکی دینے کو مسترد کیا لیکن جب اسی حوالے سے امریکی صدر سے پوچھا گیا تو انہوں نے مائیک پومپیو کے بیان کی مخالفت کی۔ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ ہمارے پاس ایک غیر معمولی مہنگا فضائی اڈہ ہے جو عراق میں ہے، اس کی تعمیر میں میرے دور سے کافی پہلے اربوں ڈالر لاگت آئی، ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک وہ ہمیں واپس اس کی ادائیگی نہیں کرتے۔

علاوہ ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران پر کسی حملے کے لیے انہیں امریکی کانگریس کی منظوری درکار نہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے تازہ بیان میں ڈیمو کریٹس سمیت ناقدین کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بیانات ہی کانگریس کیلئے نوٹی فکیشن کی حیثیت رکھتے ہیں۔عراق سے امریکی فوج کو نکلنے پر مجبور کیا گیا تو عراق پر سخت پابندیاں لگائیں گے۔دریں اثنا ء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراقی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر امریکی فوجیوں کو نکالا گیا تو اسے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے کہاکہ ایسی پابندیاں عائد کی جائیں گی جن کا عراقی حکومت نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ امریکی صدر کا یہ بیان عراقی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی اس قرارداد کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں تمام غیر ملکی بشمول امریکی فوجیوں کو ملک سے نکل جانے کا کہا گیا ہے۔ اس قرارداد پر بغداد حکومت کو عمل کرنا لازم نہیں ہے۔

عراق میں سترہ برس قبل کی فوج کشی کے بعد بظاہر ہزاروں فوجیوں کا انخلا مکمل ہو چکا ہے لیکن پھر بھی تقریباً پانچ ہزار سے زائد امریکی فوجی اب بھی موجود ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بغداد ائیرپورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی اور الحشد الشعبی ملیشیا کے رہنما ابو مہدی المھندس سمیت 8 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ایران کی جانب سے جنرل سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا عندیہ دیا گیا ہے جس کے بعدعراق اور اسرائیل نے اپنی فوجوں کو الرٹ کردیا ہے۔سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی نے کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کے قتل نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو دگنا کر دیا ہے۔ اپنے مجرموں کی زندگی کو مزید تلخ بنا دیں گے۔مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی اور جنگی ماحول کو کم کرنے کیلئے پاکستان، چین اور روس سمیت عالمی طاقتیں کوشش کر رہی ہیں۔امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے مگر یہ جنگ ایک گوریلا طرز پر لڑی جارہی ہے یہ کہنا کہ فوری جنگ چھڑجائے گی اورامریکہ اپنے اتحادیوں سمیت ایران پر حملہ کرے گا یا پھر ایران بڑے پیمانے پر جنگ کا آغازکرے گا،فی الوقت ایسا کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا البتہ ایران جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ ضرور لے گا مگر براہ راست ایران خود اپنے آپ کو اس میں شامل نہیں کرے گا۔

خیال کیاجارہا ہے کہ چھوٹے چھوٹے گروپس جو ایرانی حمایت یافتہ ہیں وہ کارروائی کرینگے جن کی شدت بڑی بھی ہوسکتی ہے مگر ایران ان حملوں کو خود آن نہیں کرے گا مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اسی طرح برقرار رہے گی جو چلتاآرہا ہے البتہ اس میں ماضی کی نسبت تیزی دیکھنے کو ملے گی مگر ایران اس حوالے سے بخوبی آگاہ ہے کہ امریکہ طاقت اور جنگی لحاظ سے ایران سے زیادہ طاقتور ہے جبکہ ایران کمزور ہے اس لئے ایران ٹارگٹڈ کارروائی کو ترجیح دے گا مگر اس تمام صورتحال پر خطے کے ممالک سمیت عالمی دنیا بھی پریشان دکھائی دے رہی ہے کیونکہ بعض اس حالیہ تناؤ کو تیسری جنگ عظیم سے منسوب کررہے ہیں مگر فی الوقت ایران اس طرح سے فرنٹ میں آکر جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا البتہ مشرق وسطیٰ میں جنگی کیفیت برقرار رہے گی۔
687