|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2020

موجودہ صوبائی حکومت جب سے بنی ہے اس ڈیڑھ سال کے عرصہ کے دوران حکومتی تبدیلی کی افواہیں متعدد بار چلی ہیں کہ حکومتی جماعت کے اندر اختلافات بعض معاملات پر موجود ہیں اور اتحادی خوش نہیں ہیں۔ اسی طرح وزارتوں اور انتظامی معاملات سے لیکر پی ایس ڈی پی میں شامل اسکیمات پر ناراضگی کا ذکر بھی سامنے آیا۔بہرحال بعض سیاسی رہنماؤں نے کھل کراپنی حکومتی پالیسیوں کے خلاف تنقید کی ہے جبکہ پس پشت معاملات کیا چل رہے ہیں۔

کیونکہ سیاسی افواہوں کی گردش اتنی زیادہ ہے کہ حکومتی، اتحادی جماعتوں کے اپوزیشن کے ساتھ رابطوں سمیت حکومت سازی کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں جس کی تصدیق اور تردید واضح طور پر نہیں کی جارہی مگر یہ چہ مگوئیاں اب بھی جاری ہیں۔یہ چند روز کی بات نہیں کہ حکومتی اہم عہدے پر فائز ایک سیاسی شخص کے وزیراعلیٰ بلوچستان کے متعلق حالیہ گڈگورننس پر دیئے گئے بیان سے جوڑا جائے،خیرمعاملات سیاسی حوالے سے موجود ہونگے مگر گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اپنے ایک پالیسی بیان میں کہا کہ ان کے نزدیک بلوچستان کا ہر ضلع اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ ان کا اپنا ضلع، اور وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اپنے ضلع کو زیادہ ترجیح دیں اور باقی اضلاع کو کم ترجیح دیں، بحیثیت وزیراعلیٰ یہ ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ ان کی توجہ پورے صوبے کے معاملات پر ہو۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبے کے مسائل کے حل کے لئے ایک جامع پالیسی اپنائی گئی ہے، معاشی اور اقتصادی ترقی، منصوبہ بندی، مانیٹرنگ اور احتساب اس اسٹریٹیجی کے بنیادی جزو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 16ماہ کی مدت میں ماضی کے مقابلے میں صوبے میں جو بہتری اور تبدیلی آئی ہے وہ ایک زمینی حقیقت ہے، ماضی میں کن کن اداروں کو کھوکھلا کردیا گیا، کس طرح زمینوں کا بٹوارہ کیا گیا، کسی طرح غلط منصوبہ بندی کے تحت منصوبوں کو ضائع کیا گیا اور کس طرح کاموں کا معیار رکھا گیا وہ آج سب کے سامنے ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج اگر کچھ لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو یہ وہ عناصر ہیں جو زمینوں کے بٹوارے، پیسہ لے کر منصوبوں کو پی ایس ڈی پی میں رکھوانے، تقرریوں اور تبادلوں کا ایجنٹ بننے، وزیراعلیٰ کے دفتر اور بعض دیگر محکموں کے توسط سے ناجائز کام کروانے، لوگوں کی عزت نفس سے کھیلنے، سیاسی بلیک میلنگ اور افسروں کو بلاوجہ تنگ کروانے اور ایسے بہت سے دیگر معاملات میں ملوث رہے جبکہ اب ایسا نہیں ہورہا، جس کی وجہ سے ان عناصر میں بے چینی پائی جارہی ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں میں وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کی تحقیقات کا خوف ہے جو پہلی مرتبہ اپنے فرائض اچھے انداز میں انجام دے رہی ہے، آج سیکریٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایس پی اور تمام دیگر افسران ایک اچھے ماحول میں کام کررہے ہیں،ان پر اب ایسا کوئی خوف نہیں کہ کوئی ایجنٹ آکر ان کی ٹرانسفر کہیں اور کروادے گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اس پورے سیاسی ماحول کے دوران ایک ایسا پالیسی بیان دیا ہے جس میں خاص کر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ماضی میں زمینوں کے بٹواروں سے لیکر تقرریوں اور تبادلوں کے پیچھے مافیا کام کرتی رہی ہے اور آج انہیں خوف لاحق ہوچکا ہے۔

بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان پورے صوبہ کا ایگزیکٹیو ہے اس لئے اب ضروری ہے کہ ان کے اس بیان کے بعد ان عناصر کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے جو کہ بلوچستان میں سیاسی یا کوئی اور لبادہ اوڑھ کر مافیا کاکام کررہی ہے اور صوبے کے مفادات کو نقصان پہنچارہی ہے کیونکہ وزیراعلیٰ کی جانب سے محض یہ الزام تو نہیں ہوگا بلکہ شواہد بھی ہونگے جس کی بنیاد پر یہ پالیسی بیان دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان مافیاز کو بے نقاب کرینگے یہ محض سیاسی ردعمل ثابت نہیں ہوگا۔