رواں برس بھی گندم کی فصل تیار ہونے سے قبل ملک بھر میں آٹے کی قیمت بڑھ گئی جبکہ کے پی کے میں آٹے کا بحران بڑھتا جارہا ہے باوجود اس کہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے سستا آٹا تقسیم کیا گیا مگر بحران کم نہ ہوسکا۔مقامی انتظامیہ کی جانب سے وعدے کے باوجود پشاورمیں سستے آٹے کے ٹرک نہیں پہنچائے جا سکے۔
اطلاعات کے مطابق مارکیٹ میں فائن آٹا60 روپے فی کلو اور 20 کلو کی بوری 1200 میں فروخت ہو رہی ہے۔ مکس آٹا 55 روپے فی کلو اور 20 کلو کی بوری 11 سو میں فروخت ہو رہی ہے۔محکمہ خوراک خیبرپختونخوا سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مختلف اراکین اسمبلی نے آٹے کے ٹرک منگوا کر اپنے حلقوں میں تقسیم کیے تاہم ہر علاقے میں سستا آٹا دستیاب نہیں۔کراچی میں بھی آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جہاں دس کلو چکی کا آٹا640 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔پنجاب میں ایک ماہ کے دوران آٹے کی قیمت میں دو بار اضافہ ہوا ہے۔
2020 کے پہلے 14دنوں میں آٹے کی قیمت 60روپے سے بڑھ کر 70 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔گندم پسائی کرنے والی چکیوں پر آٹا73 سے 75 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ سال کے آغاز پر فی کلو آٹا 60 روپے میں دستیاب تھا۔4 جنوری کو چار روپے اضافے کے ساتھ قیمت 64 روپے کر دی گئی اور اب چکیوں پر ایک کلو کے73 سے 75 روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔
بلوچستان میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 11سو روپے سے بڑھ کر 1140روپے کا ہوگیا ہے۔ 50کلو آٹا 2780 سے بڑھ کر 2850روپے اور 100کلو کی بوری 200روپے اضافے کے ساتھ 5500سے بڑھ کر 5700 روپے کی فروخت ہو رہی ہے۔آٹا ڈیلرز کا کہنا ہے کہ آٹے کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ پنجاب اور سندھ سے بلوچستان کو سپلائی پرعائد پابندی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں گندم کی پیداوار باقی صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ ہوتی ہے،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی فلور مل انڈسٹری اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے 80 فیصد گندم پنجاب کی اوپن مارکیٹ سے خریدتی ہے۔پاکستان میں انداز اًسالانہ 25 ملین ٹن گندم پیدا ہوتی ہے تاہم گزشتہ برس بارش اور سیلاب کے سبب ایک لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا جس سے گندم کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔
پنجاب میں گزشتہ سال گندم کی غیر معمولی پیداوار کی توقع کی جارہی تھی لیکن بارشوں کے سبب ایک لاکھ ایکڑ پر کاشت کی گئی گندم کی فصل کو نقصان پہنچا۔ملک بھر میں مہنگائی نے عوام کو مکمل جکڑ لیا ہے لیکن بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں میں یوٹیلیٹی اسٹورز سمیت سستے بازار لگائے جاتے ہیں،بلوچستان کے غریب عوام کو غذائی اجناس میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ملتی،پہلے کوئٹہ شہر میں صرف یوٹیلیٹی اسٹورز کی سہولت موجود تھی مگر وہ بھی بند ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ پورے بلوچستان میں اول روز سے یوٹیلیٹی اسٹورز اور سستے بازار نہیں ہیں۔
یوٹیلٹی اسٹورز کا رپوریشن نے آج تک بلوچستان بھر میں اپنا نظام ہی قائم نہیں کیا، صوبائی حکومت کو چائیے کہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کرے کہ بلوچستان کے ہر شہر اور بڑے بڑے آبادی والے علاقوں میں یوٹیلٹی اسٹورکم ازکم قائم کرے تاکہ غذائی اجناس میں تو عوام کو ریلیف مل سکے نیز وفاقی حکومت بلوچستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں سستا بازار لگائے اور ارزاں قیمتوں پر لوگوں کو غذائی اجناس فراہم کرے کیونکہ یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی تھمنے والا نہیں لہٰذا عوام کو ریلیف دینے کے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔