|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2020

امریکہ اور ایران کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہیں کیونکہ دونوں ممالک طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کررہے۔ اس سے قبل بھی دونوں ممالک مدِمقابل رہ چکے ہیں مگر حالیہ معاملہ بہت ہی گھمبیر ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد دونوں کے درمیان سخت کشیدگی نے جنم لیاجس سے مشرق وسطیٰ کے امن کو جہاں خطرات لاحق ہوچکے ہیں وہیں پرایران کے پاکستان کے پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے بھی خطے میں امن وامان کے حوالے سے خطرات دیکھے جارہے ہیں جوکہ خطہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ افغان جنگ کے اثرات اب تک موجود ہیں۔

حالیہ امریکہ اور ایران تنازعہ پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مسخرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ کہنا کہ وہ ایرانی عوام کے ساتھ ہیں دراصل جھوٹ بول رہے ہیں۔2012 کے بعد پہلی بار تہران میں نماز جمعہ کے خطبہ سے خطاب کرتے ہوئے سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا کر اپنے ہی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ یوکرائن طیارہ حادثہ بہت افسوناک تھا۔ طیارہ حادثے پر مظاہرے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو پس پشت ڈالنا ہے۔

دشمنوں نے حادثے کو جواز بناکر سپاہ پاسدارن گارڈز کو کمزور کرنا چاہا۔ طیارہ حادثے سے ایران بہت زیادہ دکھی ہے جبکہ ہمارے دشمن خوش ہیں۔سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے خطبے کے دوران امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی کی نماز جنازہ میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کر کے ثابت کردیا کہ وہ اسلامی ریاست کی حمایت کرتے ہیں۔ ٹرمپ ایرانی عوام کی کمر میں ”زہریلا خنجر“ گھونپنا چاہتے ہیں۔

ایرانی عوام ان کی چالاکیوں سے باخبر ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ایرانی فوج کے ایک ایسے کمانڈر کو مارا ہے جو عراق میں داعش سے لڑ رہا تھا۔جمعہ کے خطبے میں آیت اللہ خامنہ ای نے مغربی ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ اتنے کمزور ہیں کہ وہ ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی ”حقیر حکومتیں“ ہیں دراصل وہ امریکہ کے نوکر ہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ ایران جوہری معاہدے کے معاملے پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے لیکن یہ بات چیت امریکہ سے نہیں ہوسکتی،امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے خبردار کیا کہ امریکہ نے اگر ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا تو اسے دس گنا زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔واضح رہے کہ کچھ روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے معاملے پر نیٹو سے مدد کی اپیل کی تھی جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے، امریکہ اور عراق کے تمام فوجی محفوظ ہیں۔

نیٹو بھی ایران تنازعہ پر آگے بڑھے اور اپنا کردار ادا کرے۔انہوں نے کہا کہ میرے حکم پر امریکی فوج نے قاسم سلیمانی کو قتل کیا کیونکہ وہ کئی امریکیوں کی ہلاکت کے ذمہ دار تھے۔ قاسم سلیمانی امریکی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور خطے میں قتل و غارت پھیلا رکھی تھی۔دونوں ممالک کے سربراہان کے سخت لہجے اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ کسی بھی وقت مزید طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے اور ایک دوسرے پر حملے کرنے کے خدشات موجود ہیں جوکہ ماضی میں دیکھنے کو ملا ہے۔

بہرحال اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو ماضی کی نسبت گوریلا طرزکے حملے نہیں ہونگے بلکہ برائے راست ایک دوسرے کے سامنے آئینگے۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان نے سفارتی سطح پر معاملات کو حل کرنے کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں جبکہ دنیا کے اہم ممالک کا بھی متحرک ہونا ضروری ہے ورنہ پوری دنیا پر اس جنگ کے خطرناک ا ثرات مرتب ہونگے۔۔ عراق، شام اور افغانستان جنگ کے نتائج سامنے ہیں دنیا اس نئی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی جوخطرناک حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔