|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2020

ملک میں حالیہ مسائل میں سب سے بڑی وجہ بلدیاتی اداروں کی غیر فعالی ہے جس کی بنیادی وجہ مقامی حکومتوں کا بااختیار نہ ہوناہے یہ اب ملکی سطح پر مباحث کا حصہ بن چکا ہے جس طرح گزشتہ روز ایک وفاقی وزیر نے صوبوں کی کارکردگی کے متعلق خط لکھا تھا جس میں خاص طور پر ضلعی سطح پر کام نہ ہونے کے معاملے کو اٹھایا تھا جس کا مرکز خاص پنجاب ہی تھا مگریہ مسئلہ سب سے زیادہ بلوچستان کو درپیش ہے۔کیونکہ بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہے اور اس کی آبادی وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے لہٰذا یہاں مقامی حکومتوں کی مضبوطی انتہائی ضروری ہے تاکہ نصف پاکستان ترقی کرسکے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلوں کی منظوری کے دوران مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ کابینہ اجلاس میں دیگر اہم فیصلوں کی بھی منظوری دی گئی۔

اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے جس میں خاص کر مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ کابینہ نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010ء کی مجوزہ ترامیم کا جائزہ بھی لیااور اس امرسے اتفاق کیا گیا کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ترامیم کو حتمی شکل دے کر انہیں نافذ کیا جائے گا، کابینہ نے بلدیاتی اداروں کی تین سطحوں یونین کونسل، میونسپل کمیٹی / میونسپل کارپوریشن/میٹروپولیٹن کارپوریشن کی تشکیل سے اصولی طور پر اتفاق کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اس حوالے سے امور کو حتمی شکل دینے کے لئے کابینہ کی سب کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقات کرکے انہیں بھی اعتماد میں لے گی، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلدیاتی اداروں کو مالی وانتظامی طور پر بااختیار بنا کر انہیں فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے گا اور ان اداروں کے ملازمین کی تعداد اور استعداد کار میں بھی اضافہ کیا جائے گا، صوبائی پی ایس ڈی پی میں بلدیاتی اداروں کے لئے مناسب فنڈز مختص کئے جائیں گے جنہیں صوبائی فائنانس کمیشن کے ذریعہ تقسیم کیا جائے گا اور چیک اینڈ بیلنس کا میکنزم ترتیب دیا جائے گا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے اہم صوبائی امور پر متفقہ فیصلوں پر اراکین کابینہ کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ مخلوط صوبائی حکومت میں شامل تمام جماعتیں بلوچستان کی یکساں اور متوازن ترقی کا ایجنڈا رکھتی ہیں جو نہایت خوش آئند ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ رواں مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں صوبے کے تمام اضلاع کیلئے سڑکوں، ہسپتالوں، اسکولوں،ا سپورٹس کمپلیکس اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے منصوبے رکھے گئے ہیں جن کی تکمیل سے عوام کو صحت، تعلیم، روزگار اور آمدورفت کی سہولت مل سکے گی۔بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار مقامی حکومتوں کا ہے جس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ماضی کی حکومتوں نے حیلے اور بہانوں سے مقامی حکومتوں کو فنڈز فراہم نہیں کیں بلکہ ایم پی ایز حضرات کو فنڈز سے نوازا گیا جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں تبدیلی لائی اور عوام کے حصے میں صرف محرومیاں ہی آئیں۔ اگر ایم پی ایز اپنے فنڈز کو صحیح اور عوام کی امانت سمجھتے ہوئے استعمال کرتے تو آج پورے بلوچستان کی صورتحال مختلف ہوتی،آج بھی اندرون بلوچستان تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔

تعلیم، صحت تو اندرون بلوچستان میں غریب لوگوں کو میسرتک نہیں، آج بھی لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں،تعلیمی ادارے انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں،اسی طرح صحت کے مراکز میں کوئی بھی سہولت موجود نہیں۔دور دراز علاقوں کے عوام کوئٹہ یا پھر صوبہ کے دیگر شہروں کارخ کرتے ہیں۔ لہٰذا ترقی اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کیلئے مقامی حکومتوں کو برائے راست فنڈز فراہم کئے جائیں جس میں ایم پی ایز کا کوئی عمل دخل نہ ہو تب جاکر بلوچستان کے آدھے مسائل حل ہوسکتے ہیں جس کیلئے نیک نیتی انتہائی ضروری ہے۔