|

وقتِ اشاعت :   January 22 – 2020

گیس 214 فیصد تک مہنگی کرنے کی سمری تیار کر لی گئی جبکہ گھریلو صارفین کیلئے میٹررینٹ میں 300 فیصد اضافے کی بھی تجویز پیش کردی گئی ہے جس کے بعد گھریلو صارفین کیلئے میٹر رینٹ20 روپے سے بڑھ کر 80 روپے ہو جائے گی۔پٹرولیم ڈویژن کی سمری میں سوئی سدرن کیلئے 214 فیصد‘ سوئی ناردرن کیلئے 192 فیصد جبکہ اسپیشل کمرشل صارفین کیلئے 245 فیصد تک گیس مہنگی کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اسی طرح نادرن کمرشل کیلئے گیس 221 فیصد‘فرٹیلائزر سیکٹر کیلئے 153 فیصد‘سی این جی سیکٹرز کیلئے 32 فیصد مہنگی کرنے کی سمری تیار کی گئی ہے۔اکنامک کورڈینیشن کمیٹی کی جانب سے دی جانے والی تجویز میں کہا گیا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم فروری سے کیا جائے۔

واضح رہے اس سے قبل بھی اوگرا ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ پاور پلانٹس بہت زیادہ گیس کا استعمال کر رہے ہیں اس کے باوجود بجلی کی پیداوار بہت کم ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ بجلی فراہم کرنے والے پلانٹس کو ہی مناسب قیمت میں گیس فراہم کی جائے گی۔ کم بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس 30 سے 35 فیصد ہیں۔ اوگرا کے سینئر افسر نے دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد حکومت گیس کی قیمتوں میں اضافے پر مجبور ہے تاہم حکومت چاہتی ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ سنگل ڈیجیٹ میں رہ کر کیا جائے۔

اس سے قبل بھی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی کا بم گرا دیا تھا، اوگرا نے گھریلوسلنڈر کی قیمت میں 20 روپے اضافہ کردیا تھا،ایل پی جی سلنڈرکی قیمت 1495روپے مقرر کی گئی۔اوگرا نے ایل پی جی کی قیمت1495روپے مقرر کی تھی جبکہ گزشتہ سال اکتوبر کے دوران گھریلوسلنڈر کی قیمت 1475روپے تھی۔ملک بھر میں اس وقت عوام کی معاشی صورتحال انتہائی دگرگوں ہو گئی ہے، آئے روز نئے ٹیکسز اور اشیاء کے مہنگے ہونے کے باعث عوام کو شدیدمشکلات کاسامنا کرناپڑرہا ہے۔

بہرحال پاکستان تحریک انصاف جب اپوزیشن میں تھی تو سابقہ حکومتوں کی معاشی پالیسیوں کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج بھی پی ٹی آئی کرتی آئی ہے اور ساتھ ہی یہ دعوے بھی دیکھنے کو ملتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت برسرِ اقتدار آئے گی تو سب سے پہلے قومی خزانے سے چوری کی گئی رقم جو بیرون ملک منتقل کی گئی ہے اسے واپس لائے گی اور عوام کو مکمل ریلیف فراہم کیا جائے گا جبکہ کوئی اضافی ٹیکس عوام پر نہیں لگایا جائے گا اور نہ ہی آئی ایم ایف سمیت کسی دوسرے ملک سے قرضہ لیا جائے گا مگر یہ سارے دعوے محض دعوے ہی ثابت ہوئے۔

سب سے زیادہ آج بوجھ عوام پر ہے جبکہ بڑے بڑے مگرمچھ ٹیکس نیٹ کے اندر نہیں ہیں جس کا اندازہ خود چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو شبر زیدی کے گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار کے دوران خطاب میں ٹیکس کے متعلق اعتراف سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں ٹیکس کانظام ناکامی کی طرف جارہا ہے۔شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ملک کا ٹیکس کا نظام درہم برہم ہے، پاکستان میں کوئی بھی ذاتی طور پر ٹیکس نہیں دینا چاہتا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ مانتے ہیں کہ ٹیکسیشن کا نظام ناکامی کی طرف جا رہا ہے،ٹیکسیشن کو عوام کی مدد سے صحیح کرنا ہے اور سسٹم میں بنیادی تبدیلیاں کرنی ہیں۔

بہرحال ٹیکس نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ جب تک بڑی شخصیات خاص کر کاروباری طبقہ کو ٹیکس کے دائرے میں نہیں لایا جائے گا صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی۔عوام سب سے زیادہ ملکی قرضہ بطور ٹیکس گزشتہ کئی دہائیوں سے ادا کررہی ہے مگر غریب عوام کوہر نئی حکومت محض طفل تسلیاں دیتی ہے جبکہ سیاسی وابستگیوں کے باعث شخصیات پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا، جب تک انصاف کا یہ دہرا معیار ٹھیک نہیں ہوگا ملک میں معاشی نظام کی بہتری کی توقع کرنا فضول ہے۔ لہٰذا سب کو ٹیکس دائرے میں لایاجائے اور غریب عوام پر مزید مہنگائی کے بم نہ گرائے جائیں۔