|

وقتِ اشاعت :   January 23 – 2020

پاکستان میں ماضی کی نسبت امن وامان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے مگر یہ بدامنی کی سب سے بڑی وجہ افغان وار ہے کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اوراس کا برائے راست اثر نہ صرف امن وامان بلکہ معیشت پر بھی پڑا ہے بہرحال اب صورتحال مکمل تبدیل ہوگئی ہے مگر افغانستان میں مستقل امن کے بعد ہی خطے میں بہتری آسکتی ہے جس پر پاکستان کا واضح مؤقف ہے کہ بات چیت کے ذریعے ہی مسئلہ کو حل کیاجائے۔

گزشتہ روزوزیراعظم عمران خان نے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب میں کہناتھاکہ ملک میں امن واستحکام تک ہم ترقی نہیں کرسکتے،اب ہم کسی کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے،صرف امن کے خواہاں ممالک کا ساتھ دیں گے۔ معیشت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن واستحکام تک ہم معاشی ترقی نہیں کرسکتے۔ان کا کہنا تھا کہ 1980 کی دہائی میں شروع ہونے والے افغان جہاد کے اختتام کے بعد عسکری تنظیمیں ہمارے پاس رہ گئیں جس کے مضر اثرات کا ہمیں سامنا کرنا پڑا، اسلحے اور منشیات کے کلچر نے ہمیں متاثر کیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان ایک بار پھر امریکا کے ساتھ جنگ میں شامل ہوگیا جس کے نتیجے میں ملک میں دوبارہ بدامنی کو فروغ ملا، نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم دھماکے دیکھنے میں آئے اور 70 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوگئے اور پاکستان کا شمار دنیا کے خطرنات ترین ممالک میں ہونے لگا جبکہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا100بلین ڈالرکانقصان ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ہم کسی کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے اور صرف امن کے خواہاں ممالک کے شراکت دارہوں گے، ہم نے سعودی عرب،ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں کمی کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں بدامنی کی وجہ افغانستان پر قابض ہونے کی کوشش ہے جس نے نے اسے ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے کہ وہاں شورش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مذاکرات کے کتنے دور گزرے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلاحالیہ مذاکرات سے بڑی توقعات وابستہ تھی کہ نتیجہ خیز ثابت ہونگی جس سے افغانستان میں مستقل امن قائم ہوجائے گا مگر افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات نے پھر مذاکرات کا راستہ بند کردیا دونوں اطراف سے طاقت کا استعمال ایک بڑی وجہ بھی ہے جو مذاکرات میں کو ایک سمت کی طرف نہیں لے جارہا جس سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔

افغانستان میں جب تک مستقل بنیادں پرامن قائم نہیں ہوگا تب تک خطے میں مستقل خوشحالی اور امن ایک خواب ہی رہے گا۔البتہ افغانستان کے مسئلے پر اول روز سے یہی زور دیا جارہا ہے کہ صرف بات چیت ہی سے اس کو حل کیا جاسکتا ہے مگر طاقت کے بے جا استعمال نے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور اس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی بھی کسی طرح کامیاب دکھائی نہیں دے رہے متعدد بار مذاکرات کی بات کی جاتی ہے پھر اس میں تعطل آجاتا ہے۔ خداکرے کہ اس مسئلے کا حل جلد نکل سکے تاکہ افغانستان سمیت پورے خطے میں امن اور خوشحالی کے دروازے کھل جائیں کیونکہ امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔