|

وقتِ اشاعت :   January 27 – 2020

تربت : سی ٹی ایس پی ایکشن کمیٹی کیچ کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس۔سی ایس ایس اور پبلک سروس کمیشن میں پاسنگ مارکس40 جبکہ سی ٹی ایس پی میں 50رکھنا منظورنہیں،وزیراعلی بلوچستان، وزیرتعلیم اور سیکرٹری ایجوکیشن انصاف فراہم کریں۔

رہنماؤں کاتربت پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب۔سی ٹی ایس پی ایکشن کمیٹی کیچ کے کنوینر احسان الہی،جنرل سیکرٹری اجمل احمد،آزاداحمد،چراغ دشتی ودیگر نے تربت پریس کلب میں اتوار کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ حالیہ سی ٹی ایس پی کے ٹیسٹ سے لیکر رزلٹ کی تیاری تک امیدواروں نے عدم اطمینان کا اظہار کیاہے۔

بلوچستان میں پروفیشنل ڈگری دینے والے اداروں کا وجودنہیں لیکن امیدواروں سے ٹیسٹ میں پروفیشنل ڈگریوں کامطالبہ کیاگیاجس کی وجہ سے اکثر نوجوان مایوس ہوئے اور کاغذات جمع نہ کرسکے جبکہ سب سے بڑی زیادتی یہ کی گئی پاسنگ مارکس پچاس رکھے گئے تھے اور اکثر نوجوانوں کو فیل کیاگیا ہم سمجھتے ہیں کہ دیگر تجربوں کیساتھ ساتھ بلوچستان کے تعلیم کیساتھ بھی تجربے کیئے جارہے ہیں دیگر صوبوں میں تمام ٹیسٹنگ مارکس چالیس ہیں۔

سی ایس ایس اور بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں بھی پاسنگ مارکس چالیس ہیں لیکن پہلی مرتبہ بلوچستان میں اساتذہ کے ٹیسٹوں میں پاسنگ مارکس پچارس رکھ کر اکثر امیدواروں کو فیل کیاگیا ہم سمجھتے ہیں کہ ٹیسٹنگ ادارے پوسٹوں کے ٹیسٹ کے زریعے تجارت کررہے ہیں اور نوجوانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ نان ٹیچنگ اسٹاف پر احتجاج کرنے والی سیاسی پارٹیاں حالیہ سی ٹی ایس پی کے نتائج اور زیادتیوں پر مکمل طورپرخاموش ہیں جوکہ سمجھ سے بالاترہے،سیاسی پارٹیوں اور طلبا تنظیموں کیساتھ ساتھ اساتذہ تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اس پر خاموشی توڈیں کیونکہ یہ ایک دو افراد کا مسئلہ نہیں پورے صوبہ کامسئلہ ہے اور یہاں کے تعلیمی مستقبل کاسوال ہے جس پر خاموشی توڑنا ہوگا،سی ٹی ایس پی کی زیادتیوں کا نوٹس نہیں لیاگیا تو ہرقسم کے احتجاج کیلئے تیارہیں اور جلد مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے۔بلوچستان میں تجربوں پر تجربہ کیئے جارہے ہیں اب تعلیم اور تعلیمی ادارے بھی تجربوں کے آماجگاہ ہیں جوکہ نیک شگون نہیں۔

وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان،صوبائی وزیر تعلیم سردار یارمحمد رند، اور سیکرٹری تعلیم طیب لہڑی سے التماس ہے کہ وہ پاسنگ مارکس چالیس رکھیں اور بلوچستان کے پانچ ہزار پوسٹوں پرٹیسٹنگ اداروں کے زریعے مزید تجارت کرنے کے بجائے چالیس مارکس لینے والے نوجوانوں کو انکے یونین کونسل میں تعینات کریں۔