امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاک ایران گیس منصوبے پر کام رک گیا ہے۔سینیٹ میں تحریری جواب میں وزارت توانائی نے بتایا کہ امریکا نے ایران پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں جس کی وجہ سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی کام رک گیا ہے۔وزارت توانائی کا مزید کہنا ہے کہ ایران اور پاکستان نے گیس پائپ لائن ترمیمی معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں جس کے تحت دونوں ممالک کو منصوبہ مکمل کرنے کے لیے مزید 5 سال کا عرصہ دیا گیا ہے۔وزارت توانائی نے بتایا کہ نئے معاہدے کے باوجود منصوبے کی تکمیل امریکی پابندیاں ختم ہونے سے مشروط ہے۔
خیال رہے کہ امریکا نے ایران کے جوہری پروگرام اور دیگر معاملات کی وجہ سے اس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔دوسری جانب انٹر اسٹیٹ گیس سسٹمز کے منیجنگ ڈائریکٹر مبین صولت کاکہنا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کے پیش نظر پاکستان پاک ایران پائپ لائن منصوبے پر کام جاری نہیں رکھ سکتا اور پاکستان نے اس حوالے سے ایران کو تحریری طور پر آگاہ بھی کر دیا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کے حوالے سے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت ایک بار پھر عالمی دباؤ کے آگے جھک گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کو مکمل نہیں کر رہی، پیپلزپارٹی کی حکومت نے ایران پر عالمی پابندیوں کے باوجود ایران سے گیس پائپ لائن پراجیکٹ شروع کیا کیونکہ ہم نے پاکستان کو ترجیح دی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ قیادت کی کمزوری کی قیمت عوام بھاری گیس بلوں کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔
اگر پاک ایران گیس منصوبہ پر عمل کیاجائے تو اس کا فائدہ پاکستان کو زیادہ ہوگا۔ گزشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ نے ایران، پاکستان گیس پائپ لائن پر اپنے تحفظات پیش کئے تھے،یہ معاہدہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے کیا تھا،مسلم لیگ ن بھی اسی طرح عالمی دباؤ کاشکار ہوئی تھی اور اس نے گیس پائپ لائن منصوبہ پر کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی، گزشتہ حکومت نے یہ عذر پیش کیا کہ بینک سے قرضہ نہ ملا، کوئی کمپنی اس پر کام کرنے کو تیار نہیں، بین الاقوامی منڈی سے آلات خریدنے مشکل ہوگئے تھے جس کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ دوسری جانب ایران کی حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ 50کروڑ ڈالر کا قرضہ فراہم کرے گا،25،25کروڑ کی دو قسطوں میں وہ ادائیگی کرے گا بعد ازاں وہ پیشکش ایران نے واپس لے لی تھی۔ملک کو اس وقت توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اکثر کارخانے بند ہورہے ہیں۔ گیس کی کمی کے باعث ملک بھر میں گھریلو صارفین آئے روز احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اور سڑکوں کو بند کرتے ہیں، اسی طرح گیس نہ ہونے کی وجہ سے سی این جی اسٹیشن بھی بند رہتے ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی سی این جی کی فراہمی بندہوتی ہے۔ اس سے قبل ایران نے نہ صرف پاکستان کو بجلی فراہم کرنے بلکہ گیس پائپ لائن منصوبہ پر کام کرنے کی پیشکش کی تھی مگر بدقسمتی سے اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ بہرحال یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی دباؤ کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے اپنی معیشت اور مفادات کو اہم سمجھیں کیونکہ عالمی طاقتیں صرف اپنے مفادات کودیکھتے ہیں اور اس کیلئے چھوٹے ممالک پر اپنا دباؤ برقرار رکھتی ہیں۔ ملک میں اس وقت معاشی صورتحال دگرگوں ہے اگر ملک کی معاشی سمت کو بہتر طریقے سے آگے بڑھانا ہے تو ایسے منصوبوں پر ضرور کام کرنا چاہئے جوملک کے وسیع ترمفاد میں ہوں۔