|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2020

گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔سپریم کورٹ نے ریلوے کی آڈٹ رپورٹ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کا سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہونے کے بجائے مینول ہے۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ریلوے میں کوئی چیز درست انداز میں نہیں چل رہی، دنیا بلٹ ٹرین چلا کر مزید آگے جا رہی ہے اور ہم آج بھی اٹھارویں صدی کی ریل چلا رہے ہیں۔

ریلوے پر سفر کرنے والا ہر فرد خطرے میں سفر کر رہا ہے، نہ ریلوے اسٹیشن درست ہیں نہ ٹریک اور نہ ہی سگنل ٹھیک ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ محکمہ ریلوے سے نہ مسافر اور نہ مال گاڑیاں چل رہی ہیں، ریلوے کا پورا محکمہ سیاست میں پڑا ہوا ہے، جس کو ریلوے کی وزار ت درکار ہے اسے پہلے خود ریلوے پر سفر کرنا ہوتا ہے۔ وزیر ریلوے سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ان کا کام نہیں وزارت سنبھالنا اور نہ ہی وہ وزارت سنبھال رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آڈٹ رپورٹ نے واضح کر دیا کہ ریلوے کو اربوں روپے کا خسارہ ہو رہا ہے، انتظامیہ سے ریلوے کا نظام چل ہی نہیں رہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ مسافر گاڑیوں کا حال دیکھیں، ریلوے میں جو آگ لگی تھی اس معاملے کا کیا ہوا جس پر ریلوے کے وکیل نے کہا کہ معاملے پر انکوائری کر کے 2 افراد کے خلاف کارروائی کی ہے۔

وکیل ریلوے نے کہا کہ سابق سی ای او کو نوٹس گیا ہے موجودہ کو نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سابق سی ای او کو نوٹس گیا ہے، اہم کیس تھا موجودہ سی ای او کو پیش ہونا چاہیے تھا، بلوالیں اپنے سی ای او کو، وہ کہاں ہیں؟ ریلوے کے وکیل نے کہا کہ سی ای او اس وقت لاہور میں ہیں۔سپریم کورٹ نے وزیر ریلوے شیخ رشید، سیکریٹری ریلوے اور سی ای او ریلوے کو طلب کر کے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔ملک میں ریلوے کی حالت یقینا انتہائی ابتر ہے جس پر کسی طور پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔

وزیر ریلوے آئے روز سیاسی تبصرے اور پیشنگوئی کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ اپنے محکمہ کی سدھار کیلئے کوئی خاص دلچسپی لیتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے آج دیگر ممالک میں ریلوے نظام جدید ٹیکنالوجی سے استوار ہورہا ہے مگر ہمارے یہاں آج بھی ٹرینوں میں سفر کرنے والوں کوکوئی سہولیات میسر نہیں حالانکہ سب سے زیادہ سفر عوام ٹرینوں میں کرتے ہیں اورجسے سب سے زیادہ منافع بخش ادارہ ہونا چاہئے وہ خسارہ میں جارہا ہے المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں جو بھی ادارہ منافع بخش رہا ہے اس میں سب سے زیادہ کرپشن دیکھنے کو ملی ہے اور آفیسران دونوں ہاتھوں سے ان محکموں کو لوٹ رہے ہیں۔

بہرحال یہ محکمہ کے وزیر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے محکمہ پر خاص توجہ مرکوز کرے مگر وزیر ریلوے کو کبھی بھی ریلوے کے حوالے سے خاص بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ ہی کوئی بہت بڑا اقدام ادارے کیلئے اٹھانے پر کوئی بات سامنے آئی ہے البتہ ریلوے نظام آئے روز تباہی کی طرف بڑھتا جارہا ہے مگر ہمارے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی سیاسی پیشنگوئیاں ختم نہیں ہوتی وزیر ریلوے کے حوالے سے سیاسی حالات پر روزانہ باتیں سامنے آتی ہیں جب تک محکمہ کے وزیر خود اپنی ذمہ داری لینگے نہیں تو منافع بخش ادارے مزید زبوں حالی کا شکار ہونگے۔