|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2020

اسلام آباد: ایوان بالا کی جانب سے قرارداد کی منظوری کے ساتھ ساتھ طلبہ کی جانب سے کیے جانے والے مطالبات کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی کی مخالفت کردی۔ایچ ای سی کے دستاویز میں یہ بات سامنے آئی کہ کمیشن طلبہ یونین کی بحالی کی حمایت نہیں کرتا بلکہ طلبہ تنظیموں کو مشاعرے، بحث و مباحثے، موسیقی اور کھیلوں جیسے ‘صحت مندانہ سرگرمیوں ‘ کی تجویز پیش کرتا ہے۔

دوسری جانب نومبر 2019 میں اسلام آباد میں ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ میں شامل طوبیٰ سید کہتی ہیں کہ ایچ ای سی کی تجویز کردہ سرگرمیاں پہلے سے ہی موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم طلبہ یونینز کی بحالی چاہتے ہیں تاکہ کمپسز میں طلبہ کو درپیش مسائل کو حل کیا جاسکے’۔بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملک کے طلبہ کی ضرورت طلبہ سیاست ہے جو انہیں کیمپس می طلبہ کے حقوق اور سیاسی اظہار رائے اور اختلاف رائے کے حق کی ضمانت دیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین پر پابندی کا اقدام ملک کے نوجوانوں کو غیرسیاسی کرنا تھا تاکہ یونیورسٹی یا قومی سطح پر فیصلہ سازی میں کوئی رائے نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ ہم طلبہ سیاست کے حق کا مطالبہ کرتے ہیں جو حقیقتاً طلبہ کی آواز اور کیپمپس میں مسائل پر ان کی نمائندہ ہے۔طوبیٰ سید کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور ارتقا میں طلبہ کا تاریخی کردار ہے اور انہیں اس سے دور کرنا غیرجمہوری اور غیرآئینی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی اس کی بحالی کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اظہار کیا تھا۔اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہم دنیا کی صف اول کی جامعات میں رائج بہترین نظام سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جامع اور قابل عمل ضابطہ اخلاق مرتب کریں گے تاکہ ہم طلبہ یونینز کی بحالی کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے انہیں مستقبل کی قیادت پروان چڑھانے کے عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکیں۔’

قبل ازیں سال 2017 میں ایوان بالا نے طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے ایک قرار داد منظور کی تھی، ایوان کے دونوں فریقین کی جانب سے طلبہ یونینز پر مسلسل پابندی پر تشویش کا اظہار کرنے اوراس کی فوری بحالی کے مطالبے کے بعد سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ایک حکم دیا تھا۔ملک میں طلبہ یونینز پر پابندی جنرل (ر) ضیا الحق کے دور میں لگائی گئی تھی جبکہ ایوان بالا میں قرارداد کی منظوری کے وقت سینیٹرز نے کہا تھا کہ طلبہ یونینز پر پابندی ضیا الحق کی آمریت کے خلاف اٹھنے والی طلبہ کی آوازوں کو خاموش کرانے کا اقدام تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے طلبہ یونینز کے قیام کو ممنوع قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت انہیں بحال کرنا چاہتی ہے تو ایک مکمل میکانزم تیار کرے لیکن یکے بعد دیگرے حکومتوں نے عدالتی فیصلے کا سہارا لیتے ہوئے روایتی طلبہ سیاست کو بحال نہیں کیا۔علاوہ ازیں اب اعلیٰ تعلیم اداروں کو ریگولیٹ کرنے والی باڈی ایچ ای سی نے ایم این اے کیسو مل کھیل داس کی جانب سے ایچ ای سی آرڈیننس کی شق 10 میں ترمیم کے بل کے جواب میں طلبہ یونینز کی مخالفت کی ہے۔

اپنے بل میں ایم این اے نے کہا کہ کسی عدالت یا انتظامیہ، ٹریبیونل یا کواسی جوڈیشل اتھارٹی کے کسی فیصلے یا حکم کے باوجود کمیشن کو اداروں میں طلبہ یونینز کے قیام، انتخابات، مقاصد اور ضابطہ اخلاق کے لیے اصول بنائے گا۔انہوں نے اپنے بل میں کہا تھا کہ کیپمس میں طلبہ یونینز کی غیرموجودگی تشدد کو فروغ دے رہی اور تعمیری اور سماجی ترقی کو دبا رہی ہے۔

ایم این اے نے کہا تھا کہ ‘اس ترمیمی بل کا مقصد طلبہ یونینز کی بحالی ہے تاکہ پاکستان میں جمہوری کلچر پروان چڑھ سکے، لہٰذا یہ بل مذکورہ بالا مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے’۔خیال رہے کہ مذکورہ بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم کے آئندہ اجلاس میں اٹھائے جانے کا امکان ہے۔ کمیٹی کے لیے اپنے جواب میں ایچ ای سی کا کہنا تھا کہ ‘بل کے مواد کی حمایت نہیں کرتے’۔ایچ ای سی کا کہنا تھا کہ طلبہ یونینز کی بحالی سے جامعات میں اصلاحات لانے کی حکومتی کوششوں کو نقصان پہنچے گا کیونکہ طلبہ متحرک سیاست میں شامل ہوں گے جو کیمپس میں جانبدارانہ پولائزیشن اور تشدد کا باعث بنتا ہے۔

کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ اگرچہ یہ یونینز سیاسی جماعتوں سے وابستگی کے باعث حکومت مخالف اتحاد کرتی ہیں، کافی اثر و رسوخ، طاقت حاصل کرتی ہیں اور کیمپسس میں تعلیم، تحقیق اور ترقیاتی کاموں کے لیے خطرہ ہیں ‘۔

ایچ ای سی نے مزید کہا کہ وہ طلبہ تنظیموں کو تجویز دیتا ہے کہ وہ ‘مباحثوں، تقاریر، مقابلوں، مشاعروں، موسیقی، کھیل، بین المذاہب ہم آہنگی، فوٹوگرافی، قانون اور سیاست، ملکیت، جانوروں کی فلاح و بہبود، ایمنسٹی، ماحولیات، وغیرہ جیسی صحت مندانہ سرگرمیوں پر توجہ دے’۔

کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ ایچ ای سی کو طلبہ کے جمہوری عمل/نظام میں دلچسپی سے کوئی اعتراض نہیں، درحقیقت معاشرے کے ذہین افراد کو اچھی طرح سے آگاہ ہونا چاہیے، تاہم انہیں تعلیم کے بدلے متحرک سیاست میں گھسیٹنا طلبہ کو خود کے مفاد یا ملک کے وسیع مفادمیں نہیں ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی کا نقطہ نظر حتمی نہیں اور قائمہ کمیٹی بل کو منظور اور ایچ ای سی کے اعتراضات کو مسترد کرسکتی ہے۔