|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2020

مقبوضہ کشمیر میں صورتحال انتہائی گھمبیر ہے گزشتہ پانچ ماہ سے بھارت کی قابض فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھارہی ہے جب سے مقبوضہ کشمیر کی آزاد حیثیت ختم کردی گئی ہے وہاں پر بڑے پیمانے پر سیکیورٹی فورسز تعینات ہیں۔عوامی سطح تمام تر سرگر میاں مفلوج ہوکر رہ گئی ہیں جس پر پہلے بھی پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تھا کہ کشمیر کی صورتحال پر امریکہ سمیت دنیا اپنا کردار ادا کرے کیونکہ بھارت میں نریندر مودی کی انتہاء پسند حکومت نے سفاکیت کی تمام حدیں پار کردی ہیں، آئے روز کشمیریوں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈالا جارہا ہے اورکشمیریوں کاخون بہاکر ظلم کوبڑھاوا دیکر مسلمانوں کے خلاف مسلسل کالے قانون بنائے جارہے ہیں۔

گزشتہ روزیور پی یونین کی پارلیمنٹ میں بھارت کے متنازع شہریت کے قانون اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں پر بحث اور ووٹنگ کے لیے 6 قرارداد یں منظور کی گئیں۔751 رکنی یورپی پارلیمنٹ میں سے 651 اراکین کی غیر معمولی اکثریت نے یہ قراردادیں منظور کیں۔ان قراردادوں پر 29 جنوری کو بحث اور 30 جنوری کو ووٹنگ ہوگی، منظوری کے بعد یہ قراردادیں بھارتی حکومت، پارلیمنٹ اور یورپی کمیشن کے سربراہان کو بھیجی جائیں گی۔یورپی پارلیمنٹ کے اراکین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متنازع قانون کے ذریعے بہت بڑی سطح پر لوگوں کو شہریت سے محروم کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ وطن سے محروم ہو جائیں گے۔واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے گزشتہ سال کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے پورے مقبوضہ کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔مقبوضہ وادی میں گزشتہ 5 ماہ سے زائد عرصے سے کرفیو نافذ ہے جس کے باعث اشیاءِ خوردونوش کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے جب کہ مریضوں کے لیے ادویات بھی ناپید ہوچکی ہیں، ریاستی جبر و تشدد کے نتیجے میں متعدد کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب بھارت کے اندر بھی بڑی تعداد میں شہری متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔اس متنازع بھارتی قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔اس قانون کے خلاف بھارتی ریاستوں کیرالہ،پنجاب،راجستھان اور مغربی بنگال کی اسمبلیاں قرار دادیں بھی منظور کرچکی ہیں۔بھارت میں اقلیتوں پر مظالم ڈھانے کیلئے بھارتی انتہا پسند سرکار نے تمام اخلاقی حدیں پار کرلی ہیں جس کے خلاف بھارت بھرمیں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف شہروں میں بھارتی سرکار کے کالے قانون کے خلاف شہری سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں بھارتی سرکار مسلمانوں کو دبانے کیلئے مختلف حربے استعمال کررہی ہے تاکہ کسی طرح مسلمانوں کو بھارت سے نکالاجائے جو کہ اس قانون سے واضح ہے مگر ان تمام حربوں کے باوجود نریندر مودی کی سرکار کو بھارت کے اندر شدید مزاحمت کا سامنا ہے جس میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی شریک ہوگئے ہیں۔

بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے عیاں ہوچکا ہے یہ سب سے خوش آئند بات ہے کہ یورپی پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں کالے قوانین کے خلاف اکثریت کے ساتھ قراردادیں منظور کی ہیں تاکہ اس پر بحث کی جاسکے جس سے یقینا بھارت کے مظالم کے خلاف نوٹس لیاجائے گا جبکہ مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج کونکالنے اورمتنازعہ شہریت بل واپس لینے پر زور دیا جائے گا تاکہ اقلیتوں پر جاری مظالم کو روکاجاسکے۔