|

وقتِ اشاعت :   February 9 – 2020

بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کا خواب گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں کی عوام دیکھ رہی ہے۔ ہر بار نئی حکومتیں بلوچستان میں دودھ اور شہدھ کی نہریں بہاتی ہوئی دکھاتی ہیں شاید ہی کوئی ایسی صوبائی حکومت گزری ہو جس نے معاشی انقلاب اور عوام کی خوشحالی کے دعوے نہ کئے ہو اور یہ شکوہ نہ کیا ہو کہ بلوچستان میں کن ناقص منصوبہ بندی اور پالیسیوں کی وجہ سے معاشی تبدیلی نہیں آسکی۔ ہاں یہ ضرور دیکھنے کو ملا ہے کہ جب حکومتی مدت اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہوتی ہے یا پھر ختم ہوجاتی ہے تب تمام مسائل کو بیان کرکے نکل جانے کا راستہ تلاش کیاجاتا ہے گویا کوئی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں کہ اقتدار کے منصب پر بیٹھ کر سچ بولنے کو ترجیح دی جاسکے تاکہ عوام کو یہ تسلی مل سکے کہ جن نمائندگان کو انہوں نے اسمبلی کے ایوان تک پہنچایا ہے کم ازکم وہ سچ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو سامنے لارہے ہیں مگر مجال ہے کہ ایسی روایت یا جرأت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملے البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ حکومتی عہدوں پر براجمان ہوکر بلند وبانگ دعوے دبنگ انداز میں کھل کر عوامی اجتماعات، سیمینارزمیں کیے جاتے ہیں مگر زمینی حقائق بالکل اس کے برعکس ہیں۔

بہرحال حقیقی بنیادوں پر صورتحال کو واضح کیاجائے تاکہ عوام کو یہ تسلی ہو کہ ترقی کب اور کیسے آئے گی۔گزشتہ روزوزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے محکمہ توانائی اور محکمہ صنعت وتجارت کی کارکردگی اور پیشرفت کے جائزہ اجلاس کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ سترہ ماہ کے دوران بہتر حکمت عملی، جامع پالیسی اور خلوص نیت کے ساتھ کام کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے کئی ایک ترقیاتی اہداف حاصل کئے ہیں اور صوبے کی دیرپا ترقی کی سمت کا تعین کردیا ہے، اس میں سیاسی قیادت اور افسران کی محنت بھی شامل ہے، محکمے اپنی کامیابیوں او رکارکردگی کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہیں مناسب طریقے سے اجاگر بھی کریں۔ سیکریٹری توانائی شہریار تاج اور سیکریٹری صنعت وتجارت غلام علی بلوچ نے اجلاس کو اپنے اپنے محکموں کے منصوبوں کی پیشرفت اور اب تک حاصل کئے گئے اہداف پربریفنگ دی، سیکریٹری توانائی نے محکمے میں ہونے والی قانون سازی کے حوالے سے آگاہ کیا کہ الیکٹرک سٹی رولز 1937ء میں کی جانے والی ترامیم سے الیکٹریسٹی انسپکشن کے چارجز میں اضافہ کے بعد اس مد میں حاصل ہونے والی آمدنی دس ملین روپے سے بڑھ کر پچاس ملین روپے ہوگئی ہے جبکہ فنانس ایکٹ 1964ء میں ترمیم کے بعد الیکٹریسٹی ڈیوٹی میں 1.5فیصد اضافہ سے اس مد میں ماہانہ تین ملین کی بجائے 6.5ملین روپے آمدنی ہورہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ توانائی کے شعبہ میں صوبائی حکومت اور سرمایہ کار کمپنیوں کے مابین شراکت داری کے تحت منصوبوں کو بھی حتمی شکل دی گئی ہے جن میں گوادر میں تین سو میگاواٹ کا پاور ہاؤس بھی شامل ہے، منصوبے کی لینڈ لیز کے تحت حکومت بلوچستان کو پانچ سو ملین روپے منتقل کئے گئے ہیں جبکہ رینٹ کی مد میں سالانہ پچیس ملین روپے حاصل ہوں گے، انرٹیک کمپنی کے ساتھ ضلع پشین میں رینیو ایبل پلانٹ کی تنصیب کے منصوبے میں حکومت بلوچستان آٹھ فیصد کی شراکت دار ہے، محکمے کے ترقیاتی امورکے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں انرجی پارکس کے قیام کے منصوبے عملدرآمد کے مراحل میں ہیں جن میں سبی، بولان، نوکنڈی، مستونگ، پشین، قلعہ سیف اللہ، خضدار، لورلائی، پنجگور اور لسبیلہ شامل ہیں جو سورج اور ہوا کے ذریعے توانائی کی پیداوار کے لئے موزوں ہیں۔

بلوچستان میں اجلاسوں کے دوران سیکریٹریز ہمیشہ اسی طرح سے بریفنگ دیتے رہے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا بیان بھی اسی طرح سامنے آتا رہا ہے مگر سب سے اہم بات بلوچستان کی حقیقی ترقی اور بہترین منصوبہ بندی ہے جب تک محکمہ کے آفیسران اپنے محکموں پر خاص توجہ مرکوز نہیں کرینگے نتائج اچھے برآمد نہیں ہونگے۔ بہرحال یہ امید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت ماضی کی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ بلوچستان میں حقیقی معنوں میں معاشی ترقی آسکے اور یہاں کے عوام کا دیرینہ خواب پورا ہوسکے۔