|

وقتِ اشاعت :   February 12 – 2020

ملک کی سیاسی تاریخ انتہائی منفی رہی ہے خاص کر جمہوری حکومتوں کے ادوار میں یہ روش ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا ہے مگر اس سیاسی تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے مسلسل اس عمل کو دہرانے کی کوشش کی گئی۔ اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار کا ہی جائزہ لیا جائے تو سیاسی اختلافات انتہائی اقدام تک جا پہنچیں جہاں دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے قائدین پر نہ صرف الزامات لگائے بلکہ قید وبند بھی کئے گئے۔ جن انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات پر جیل بھیجے گئے ان کا اعتراف خود انہی جماعتوں کے رہنماء آج خود اسمبلی فلورپر کرتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کو انتقامی عمل میں تبدیل کرتے ہوئے منفی سیاسی کلچر کو فروغ دیا گیا اور آج اس کا خمیازہ ہم دونوں جماعت خود بھگت رہے ہیں۔

گویا یہ اعتراف خودمجرمانہ عمل کو تسلیم کررہا ہے کہ سیاسی بحران کو اس نہج تک خود پہنچایا گیا کہ اس کی آگ نے سب کو لپیٹ میں لیا جس کا نقصان صرف جمہوری عمل کو نہیں ہوا بلکہ اس نے معیشت کا بھی دیوالیہ نکال دیا۔ کیونکہ جہاں انتقامی سیاست پروان چڑھی وہیں منظور نظر شخصیات کو اہم عہدوں پر فائز کرتے ہوئے قومی منافع بخش اداروں میں تاریخی کرپشن کی گئی جس کی نظیر نہیں ملتی جبکہ بیرونی قرضوں کے ذریعے اپنی صنعتوں کو پروان چڑھایا گیا بجائے یہ کہ قومی ترقیاتی عمل کو آگے بڑھایا جاتا مگر اس صنعتکاری سیاست نے پوری قومی سیاست کو کرپشن کے ذریعے زنگ آلود کردیا اور اس طرح سینیٹ کے ارکان کی بولی کروڑوں میں لگنے لگی اور ایوان بالا میں ایسے نمائندگان کو پہنچایا گیا جنہوں نے نہ صرف اپنے رقم کی وصولی کی بلکہ کسی بھی موقع کو ضائع نہ جانے دیا جہاں سے انہیں رقم ملتی گئی اور اسی طرح سیاسی وفاداری کے ذریعے اپنے لانے والے قائدین کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے عوامی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی اور عوام کی ترقی کے عمل کو روک کر صرف کرپشن کو فروغ دیا گیا۔

جبکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے روز کرپشن اور دیگر الزامات کی آڑ میں سیاسی انتقام کو پروان چڑھاتے ہوئے ترقی کے عمل کو بریک لگایا گیااور آئے روز کی تبدیلی اور حکومت گراؤ کے عمل نے دنیا میں ملکی سیاست کا انتہائی منفی چہرہ سامنے پیش کیا جس سے ملکی معیشت روز بروز گرتی گئی اور معیشت کا دارومدارصرف قرض پررہ گیا کیونکہ اس دورانیہ میں سرمایہ کاری کو مکمل بریک لگ گئی تھی۔ ابایک بار پھر جمہوری حکومت کے تسلسل کو بریک لگانے کیلئے تبدیلی کی افواہیں بازگشت کررہی ہیں جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے منفی سیاسی کلچر کو ختم کیا جائے اور جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جائے کیونکہ اسی جمہوری عمل سے ہی ملک بحرانات سے نکل سکتا ہے ناکہ منفی سیاست اور حکومتی تبدیلیوں سے کچھ ہاتھ نہیں آنا سوائے نقصانات اور بحرانات کے جو عوامی مفادات کے خلاف ہے۔