|

وقتِ اشاعت :   February 13 – 2020

بلوچستان واحد صوبہ ہے جو اپنے وسائل اور مخصوص محل وقوع کی وجہ سے دیگر صوبوں کے مقابلہ میں منفرد پہچان رکھتا ہے جبکہ طویل ساحلی پٹی بھی تجارتی لحاظ سے الگ حیثیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے تمام تر وسائل اور محل وقوع کے باوجود اس خطے پر کوئی سرمایہ نہیں کی گئی۔وفاقی حکومتوں نے اس جانب توجہ تو کجا ہاتھ لگے مواقع کو ضائع کیا۔ بلوچستان کے ساتھ ایران اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں اور ان دونوں ممالک کے ساتھ سرحدی تجارت سے مقامی تاجر اربوں روپے کماتے ہیں مگر باقاعدہ قانونی تجارت موجود نہیں جس سے قومی خزانہ سمیت بلوچستان کو براہ راست فائدہ پہنچے حالانکہ ایران نے متعدد بار پاکستان کو سستی بجلی فراہم کرنے کی پیشکش کی جہاں بلوچستان کے ذریعے بجلی سپلائی کرنا شامل تھا، اگر ایران کی اس پیشکش کو قبول کیا جاتا تو بلوچستان کی معاشی صورتحال اس قدر تبدیل ہوجاتی کہ پسماندگی کے سایہ تک غریب صوبہ پر نہیں پڑتے مگر اس وقت کے وزراء اعظم خاص کر مسلم لیگ کے دور میں ایران کو کوئی خاص جواب نہیں دیا گیا اور نہ ہی ان منصوبوں کی افادیت کو سمجھتے ہوئے تھوڑا سا غور وفکر کیا گیا بلکہ سہانے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن جس کا پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں معاہدہ ہوا تھا۔

اسے عالمی دباؤ خاص کر امریکہ کی وجہ سے آگے نہیں بڑھایا گیا جو آج تک تعطل کا شکار ہے جس سے توانائی کا بحران ختم بھی ہوسکتا تھا مگر امریکی دباؤ اور عالمی چپقلش کا شکار پاکستان رہا۔ دوسری جانب ایران کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کی تجارت اور سرمایہ کاری ہمارے سامنے ہے جاپان اور بھارت جو امریکی بلاک کا خاص حصہ ہیں ان دو ممالک نے بھی اربوں روپے کی سرکاری چابہار میں کی ہے جبکہ مغربی ممالک ایران سے تیل کی خرید میں صف اول میں دکھائی دیتے ہیں جبکہ امریکی دباؤ کو ہمارے ہاں نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ جو حکم امریکہ کی طرف سے آیا،سرخم تسلیم کیا گیا۔ بدلے میں ہمارے حکمرانوں نے عالمی اداروں سے صرف قرضوں پر اکتفا کیا جس سے ہماری معیشت قرضوں کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے اور مہنگائی نے ہمارے عوام کو آج جس طرح جکڑ لیا ہے کہ ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور بیروزگاری کی شرح بڑھتی چلی جارہی ہے کیونکہ جب آپ کا پورا بجٹ خسارہ میں چلا جاتا ہے اور غیر ترقیاتی اسکیمات کے لیے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے تو اس کے نتائج بھیانک ہی نکلتے ہیں۔ اگر سرمایہ کاری کو فروغ دیکر تجارت پر زور دیا جاتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی ممالک اپنی چپقلش اور مفادات کے تحت فیصلہ کرتے ہیں تو کیا ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم اپنے مفادات کو مقدم رکھیں۔ آج تک امریکہ نے کونسی مہربانی پاکستان پر کی ہے افغان جنگ سے لیکر مسئلہ کشمیر تک وہ اپنے مفادات کا ہی تحفظ کرتا آیا ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کو لولی پاپ دیکر کام چلاؤ کی پالیسی پر گامزن ہے مگر یہ ہمارے حکمرانوں اور پالیسی ساز وں کو سوچنا چاہئے کہ ہم کس خطے میں کن ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دیتے ہوئے معاہدے کریں تاکہ ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکیں اور قرض کے مرض سے نکل کر خود کفیل بن سکیں۔ بلوچستان کے وسائل اور زمین سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اس کے بہت ہی اچھے نتائج بھی برآمد ہونگے مگر اس کیلئے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آزادانہ فیصلے کرنے ہونگے جس سے نہ صرف ملک بلکہ بلوچستان کو بھی براہ راست فائدہ پہنچے گا اور بلوچستان پسماندگی سے نکل کر ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا۔