گزشتہ 18 سالوں سے افغانستان جنگ زدہ صورتحال کا شکار ہے اس جنگی ماحول کو کم کرنے کیلئے متعدد بار امن عمل کا آغاز کیا گیا مگر اس کے کوئی خاص نتائج برآمد نہیں ہوئے، اس جنگ نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، جنگجو گروپوں نے اپنا نیٹ ورک اتنا وسیع کرلیا تھا کہ جس سے مغربی ممالک بھی نہیں بچ سکے جہاں پر خود کش سمیت دیگر بم دھماکے ہوئے جس میں عوامی مراکز سمیت حساس علاقے بھی شامل تھے۔ اس جنگ نے گویا پوری دنیا کو ایک خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا تھا کہ آئے روز ایک نئے مقام پر درجنوں افراد کو ہدف بنایا جارہا تھا بالآخر افغانستان میں جنگجو گروپ کے خلاف آپریشن کو تیز کردیا گیا جبکہ دیگر نیٹ ورکس کے خلاف طویل آپریشن بھی کیا گیا مگر باوجود اس کے امریکہ اور نیٹو کو ان اٹھارہ سالوں کے دوران کوئی خاص کامیابی ہاتھ نہیں آئی۔
نائن الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان پر امریکی دباؤ بڑھتا گیا کہ افغان جنگ میں اس کا اتحادی بن کر ساتھ دیا جائے جبکہ زمینی راستہ خاص ائیر بیس کو امریکہ کے حوالے کیاجائے پاکستان میں ان دنوں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور اسے پہلے سے ہی ملک کے اندر سیاسی چیلنجز کا سامنا تھا پوری اپوزیشن اس وقت پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی تھی مگر یکدم سے عالمی حالات نے کروٹ بدلی اور پاکستان بھی اس سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکا، اس لئے پرویز مشرف نے آل پارٹیز اجلاس بلایا جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی بعض سیاسی جماعتوں نے اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ اتحادی ہونے کی مخالفت کی مگر امریکی دباؤ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ بعض حلقے خدشات کا اظہار کررہے تھے کہ اگر پاکستان نے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہیں دیا تو امریکہ اور نیٹو پاکستان پر بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ بہرحال شدید عالمی دباؤ اور دوسری جانب شدت پسندی کو روکنے کیلئے پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے اس جنگ میں حصہ لیا اورپھر اس جنگ کی وجہ سے پاکستان نے بہت جانی اور مالی نقصانات اٹھائے کیونکہ مسلسل دہشت گردی کے واقعات پاکستان میں رونما ہونے لگے۔
بعدازاں پاکستان نے اندرونی دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے آپریشنز کاآغاز کیا اور اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے واقعات میں انتہائی کمی آئی مگر افغان جنگ کی وجہ سے لاکھوں افغان مہاجرین آج بھی پاکستان میں آباد ہیں خاص کر بلوچستان میں تو ان کی تعداد ملک کے دیگر حصوں سے سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے بلوچستان شدید متاثر ہے اور آج بھی یہی صدا بلند ہورہی ہے کہ جلد از جلدافغان مہاجرین کے انخلاء کو یقینی بنایا جائے۔ اگر دیکھا جائے تو افغانستان میں امن عمل سے سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہی ہوگا مگر بدقسمتی سے چند دنوں کی جنگ بندی کے بعد پھر سے واقعات جنم لینے لگتے ہیں اور مذاکرات تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ تسلسل ابھی تک جاری ہے۔
گزشتہ روزایک بارپھر امریکا اور طالبان افغانستان میں 7 روز کے لیے جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے افغان طالبان کے ساتھ عارضی جنگ بندی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پر تشدد واقعات میں کمی پر اتفاق سے 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔برسلز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ ہم سب نے متفقہ طور پر کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا اگر کوئی حل ہے تو وہ سیاسی ہے، اس معاملے پر پیشرفت ہوئی ہے اور مزید مثبت خبریں بھی جلد سامنے آئیں گی۔
امریکی وزیر دفاع نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ طالبان کے ساتھ یہ جنگ بندی کب سے شروع ہو گی لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ امن معاہدہ بہت قریب پہنچ چکا ہے۔ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس (طالبان کے ساتھ) ڈیل کا بہت ہی اچھا موقع ہے، اور ہمیں اس حوالے سے آئندہ دو ہفتوں میں پتہ چل جائے گا۔پینٹاگون کے سربراہ نے کہا کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو پرتشدد واقعات میں کمی کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ ایک سال سے افغان امن عمل کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں جس کا مقصد افغانستان سے 18 سالہ جنگ کا خاتمہ ہے۔
بہرحال ایک بار پھر ان مذاکرات سے امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں کہ چند دنوں کی جنگ بندی کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی راستہ ڈھونڈا جائے گا تاکہ افغانستان میں امن بحال ہوسکے اوروہاں ایک مستحکم اور غیر جانبدار حکومت کی تشکیل ممکن ہوسکے جس میں افغان عوام کی شراکت داری یقینی ہو کیونکہ اب تک افغانستان میں ہونے والے انتخابات میں جو بھی حکومت آئی ہے وہ امریکہ نواز ہی رہی ہے جو آزادانہ طور پر نہ صرف قانون سازی کرسکتی ہے بلکہ دیگر قومی معاملات میں امریکہ سے ڈکٹیشن لیتی ہے جوکہ افغانستان کے بعض حلقوں کیلئے قابل قبول نہیں اور یہی ایک بڑی وجہ ہے جو افغان امن عمل کو متاثر کئے ہوئے ہے۔ اب امریکہ کوخود اس بات پر سوچنا ہوگا کہ افغانستان میں صرف مذاکرات نہیں بلکہ اپنی مداخلت کو بھی محدود کرنا ہوگا تب جاکر دیرپا اور کامیاب امن کی امید کی جاسکتی ہے وگرنہ اس وقتی جنگ بندی سے امن کا خواب محض خواب ہی رہے گا اور جنگی حالات اسی طرح برقرار رہیں گی۔