|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2020

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پولیو کے 5 نئے کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد رواں برس کے ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں ملک کے مختلف علاقوں سے سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد 17 ہوگئی۔ایمرجنسی آپریشن سینٹر خیبر پختونخوا کے مطابق صوبے میں 4 نئے پولیو کیسز سامنے آئے ہیں جو ضلع لکی مروت سے رپورٹ ہوئے۔حکام کے مطابق لکی مروت کی تحصیل بیٹنی میں 22 ماہ اور 18 ماہ کے بچوں جبکہ تحصیل سرائے نورنگ میں 17 ماہ کے بچے اور تحصیل لکی مروت میں 11 ماہ کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

صوبے میں 4 نئے کیسز کی تصدیق کے بعد رواں سال پولیو کیسز کی تعداد 10 ہوگئی جن میں سے 9 کیسز ضلع لکی مروت اور ایک ٹانک سے رپورٹ ہوا ہے۔ صوبے میں 5 روزہ انسداد پولیو مہم 17 فروری سے شروع ہوگئی ہے جس میں 68 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں بھی ایک اور پولیو کیس سامنے آیا ہے، محکمہ صحت بلوچستان کے حکام کاکہناہے کہ ضلع پشین میں 7 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

حکام کے مطابق حالیہ پولیو مہم کے دوران متاثرہ بچے کے اہلخانہ نے بچے کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا تھا۔ انسداد پولیو ٹیموں نے متعدد بار کوشش کی لیکن اہلخانہ اس پر راضی نہیں تھے۔حکام نے بتایا کہ بچے کے سیمپلز 31 جنوری کو حاصل کیے گئے تھے جن سے بچے میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔محکمہ صحت کے مطابق پشین سے کیس کی تصدیق کے بعد رواں سال بلوچستان میں پولیو کیسز کی تعداد 2 ہوگئی ہے۔ دونوں صوبوں میں 5 کیسز کی تصدیق کے بعد ملک میں مجموعی طور پر پولیو کیسز کی تعداد 17 تک جاپہنچی ہے جس میں سے 10 کیسز خیبرپختونخوا، 5 سندھ اور 2 بلوچستان سے رپورٹ ہوئے۔

واضح رہے کہ سال 2019 پولیو کے حوالے سے پاکستان کے لیے خطرناک رہا ہے جہاں 140 سے زائد پولیو کیسز سامنے آئے تھے اور یہ تعداد گزشتہ کئی برسوں سے زیادہ ہے۔ پولیو جیسے خطرناک موذی مرض کے خلاف جنگ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پہ راضی نہیں ہوتے کیونکہ بلوچستان اور کے پی کے خاص کر ان صوبوں میں شمار ہوتے ہیں جہاں پولیو مہم سب سے زیادہ چلائی جاتی ہے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہر بچہ کو پولیو ویکسیئن دیا جائے تاکہ اس وائرس کا خاتمہ یقینی ہوسکے جس کیلئے پولیو ایمرجنسی سینٹر کا کردار انتہائی فعال رہا ہے اور اب بھی یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ جب بھی پولیو مہم شروع کی جاتی ہے تو تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو خاص کر اس مہم میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ وسیع تر رقبے اور منتشر آبادی میں اس مہم کو کامیاب بنایاجاسکے۔

کیونکہ بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہے،اس کی آبادی منتشر ہے اور ایک ضلع سے دوسرے ضلع کا فاصلہ انتہائی طویل اور دشوار گزار ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ہرضلع میں پولیو ورکرز کو بھیجا جاتا ہے اورسیکیورٹی کے خاص انتظامات کئے جاتے ہیں مگر چند ایسے عناصر ہیں جو پولیو ویکیسئن کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرکے معاشرے کو شدید متاثر کرتے ہیں اس خطرناک مرض کی وجہ سے ہمارے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے جوانہیں عمر بھر کی معذوری کا شکاربنا دیتی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ پولیو مہم کے خلاف منفی پروپگینڈا کرنے والے شرپسند عناصر کے خلاف سیاسی، مذہبی، سماجی جماعتوں سمیت ہر مکتبہ فکر کو کردار ادا کرنا چائیے خاص کر ہماری میڈیا کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ پولیو جیسے خطرناک موذی مرض کے حوالے سے تشہیری پروگرام کرے، خبروں، تحاریر، خصوصی رپورٹس کے ذریعے عوام کو شعور دینا چاہئے تاکہ اس موذی مرض کا خاتمہ یقینی ہوسکے۔