کوئٹہ: امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ حکومتی بے حسی، حکومتی سطح پر چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کی وجہ سے ملک میں مہنگائی،بدامنی وبدعنوانی پیدا ہوئی ہے آئی ایم ایف کے ملازمین ونااہل نمائندے پاکستانی عوام کیلئے عذاب بن گئی ہے آئی ایم ایف کے عذاب سے قوم کو نکلنا ہوگا بدقسمتی سے ملک میں احتساب نام کی کوئی چیزنہیں۔
حکومت کے خلاف بات کرنے والوں کے احتساب سے احتساب کے تقاضے پورے نہیں ہوتے سرکارکا چور باعزت جبکہ مخالف کو معمولی سزادی جارہی ہے جماعت اسلامی کی حکومت آئی تو ہم سب سے پہلے بلوچستان کوان کا آئینی وقانونی حقوق دیں گے گیس کی رائیلٹی،سیندک،ریکوڈک اور سی پیک پر سب سے پہلے بلوچستان کے عوام کا حق ہے بلوچستان کے حکمرانوں نے بھی یہاں کے عوام کا ساتھ نہیں دیا۔بلوچستان ر زرعی صوبہ ہے مگر یہاں کے عوام کو پانی نہیں مل رہا۔
پورامعاشی نظام آئی ایم ایف کے حوالے کرناعوام کیساتھ ظلم ہے جس کوکسی صور ت برداشت نہیں کیا جائیگا۔۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے صحبت پوربلیدہ میں قبائلی عمائدین ومسجد کے افتتاح کے موقع پر تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ، امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی، ہدایت الرحمان بلوچ،بشیر احمدماندائی بھی موجودتھے۔
سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ کوئٹہ میں بدامنی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔جماعت اسلامی متاثرہ خاندانوں کے دکھ دردمیں شریک ہیں بدامنی کے خلاف پوری قوم نے ملکر کام کر نا ہے۔حکومت ہر سطح پر ناکام ہوئی ہے۔ ساری پریشانیوں اور مشکلات کے اصل مجرم وہ لوگ ہیں جو چہرے بدل بد ل کر اقتدا ر کے ایوانوں پر قابض ہوتے رہے۔ دنیا سودی نظام کو چھوڑ رہی ہے او ر ہمارے ملک میں سود کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے جو اب چھ فیصد سے 13فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
13 فیصد پر قرضے لے کر کون کاروبار کرے گا۔ دو ہزار 9 سے ارب تو سالانہ سود میں چلا جاتاہے اور صرف 700 ارب روپیہ ترقیاتی کاموں کے لیے بچتاہے اور یہ بھی پورا خرچ نہیں ہوتا بلکہ کرپشن کی نذر ہو جاتاہے۔
عوام کی خون پسینے کی کمائی اور ٹیکسوں کا پیسہ آئی ایم ایف کے پاس چلا جاتاہے، وزیراعظم قرضہ لینے کو خود کشی کہتے تھے، اور اب دھڑا دھڑ قرضے لے رہے ہیں۔ اٹھارہ ماہ میں حکومت نے 11 ہزار ارب کا قرضہ لیا۔ 70 سالوں میں 31 ہزا ر ارب روپے قرضہ تھا جو اٹھارہ ماہ میں 42 ہزار ارب تک پہنچ گیاہے۔ روپیہ کاغذ کا بے وقعت ٹکڑا بن کر رہ گیاہے۔ یہ پہلی حکومت ہے جس نے پورا معاشی نظام آئی ایم ایف کے ہاتھ میں د ے دیا۔
ایف بی آر اور اسٹیٹ بنک میں آئی ایم ایف کے لوگ بیٹھے ہیں۔ روپے کی قدر، بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں وہ مقرر کرتے اور ٹیکس لگاتے ہیں۔ اب تو درآمد اور برآمد کی اجازت بھی حکومت آئی ایم ایف سے لیتی ہے۔ بلوچستان کو اگر ترقی دینی ہے تو اقتدار دیانت دار لوگوں کے حوالے کرنا ہوگا بصورت دیگر لوٹ مار بدامنی منی اور بدعوانی چلتی رہے گی سرمایہ دار ولوٹ مار کرنے والے کامیاب ہوں گے اور عوام پریشانی ومشکلات کے دلدل میں پھنستے جائیں گے۔