دنیا کے کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو پوری عالمی برادری اس پر نہ صرف آواز بلند کرتی ہے بلکہ عملی طور پر مظالم کے خلاف کردار بھی ادا کرتی ہے اور اس طرح سے کتنے ایسے ممالک ہیں جہاں پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے امن اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بڑے پیمانے پر جنگ کی جس کی واضح مثال افغانستان، عراق اور شام ہیں مگر جب بھی کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو عالمی برادری مکمل خاموشی اختیار کرتی ہے خاص کر امریکہ اور اس کے اتحادی لب کشائی تو کجا بلکہ فلسطین اور کشمیر کے معاملے پر انتہائی محتاط دکھائی دیتے ہیں چونکہ ان کے مفادات ان ممالک سے وابستہ ہیں۔
عرصہ دراز سے کشمیر اور فلسطین پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا ہے مگر مجال ہے کہ امن کے دعویدار ان ممالک کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو البتہ جہاں ان کی ترجیحات اور مفادات ہوتے ہیں تو ایک ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ اگر ان امن دشمن ممالک پر پابندیاں نہ لگیں اور ان کے خلاف جنگ نہ کیا گیا تو پوری دنیا کا امن خطرہ میں پڑجائے گا اس کی منظر کشی اس طرح کی جاتی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اس پروپیگنڈہ کے زیر اثر آکران کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ افغانستان، عراق اور شام جنگ زدہ ہوکر رہ گئے ہیں مگر آج تک امن قائم نہیں ہوسکا بلکہ یہ جنگیں طول پکڑتی گئیں جس سے پوری دنیا کا امن براہ راست متاثر ہوا اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کب عالمی قوتوں نے کن کن تنظیموں کی بنیاد رکھی اور کس طرح سے اپنے پنجے گاڑ کر تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے زیر عتاب رکھا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ثالثی بیان صرف شوشا ہیں اور ان کی کوئی دلچسپی مسئلہ کشمیرکو حل کرنے میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ بھارت پر دباؤ ڈالنے کے موڈ میں ہیں صرف اپنے مفادات اورترجیحات کے تحت ثالثی کی باتیں کرتے ہیں اور ان کے بیانات کو سنجیدگی سے بھی نہیں لیاجاتا کیونکہ امریکی صدر خود اس معاملہ پر انتہائی غیر سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں،ان کے اس بیان کا مقصد افغانستان میں پاکستان کو جنگ بندی کے حوالے سے مصروف کرنا ہے۔
بہرحال پاکستان خود افغانستان میں امن کا خواہاں ہے کیونکہ اس جنگ سے اگر دنیا کا کوئی ملک متاثر ہوا ہے تو وہ واحد ملک پاکستان ہے جس نے جانی اور مالی نقصانات اٹھائے اور معاشی حوالے سے اس کے جو اثرات پڑے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ بہرحال گزشتہ روز ایک بار پھر کشمیر کا ذکر چھڑ گیا جب برطانوی آل پارٹیز کشمیر گروپ پاکستان کے دورہ پر تھی اس دوران انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ اگرصورتحال معمول پر ہے اور ہندوستان کچھ چھپا نہیں رہا تو بھارت ہمیں مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے۔ برطانوی وفد کی سربراہ ڈیبی ابراہمز کا کہنا تھا کہ ان کا گروپ دونوں جانب سے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں جاکر وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینا چاہتے تھے لیکن ہندوستان کی جانب سے ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ ڈیبی ابراہمز نے کہا کہ پاکستان کے اقدامات سے ان کی مثبت سوچ نظر آتی ہے اور ہمیں امید ہے کہ بھارت بھی مثبت اقدامات کرے گا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ڈیبی ابراہمز مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا مشاہدہ کرنا چاہتی تھیں لیکن بھارت نے انہیں جانے نہیں دیا۔پاکستان میں برطانوی پارلیمانی گروپ کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے اس گروپ کی رپورٹ اور اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں بہت مماثلت ہے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی ایک رپورٹ اور آنی چاہیے۔ پچھلے چھ ماہ میں پاکستان نے مختلف حکومتوں اور حکمرانوں سے رابطہ کیا ہے، وہ لوگ صورتحال سے آگاہ ہیں بے خبر نہیں ہیں جو لوگ خاموش ہیں وہ مصلحتاََخاموش ہیں ان کے مفادات ہیں، ہم توقع کررہے ہیں برطانوی پارلیمنٹ اور امریکی کانگرس سے کہ وہ بھی پاکستان کی طرح یہاں سے آواز اٹھائیں۔ عالمی انسانی حقوق کے ادارے بربریت پر آواز اٹھا رہے ہیں، جمہوریت کو یہ آوازیں کیوں سنائی نہیں دے رہیں، کشمیر ایک نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ بہرحال صورتحال سے پوری دنیا اس وقت واقفیت رکھتی ہے کہ کشمیر میں اس وقت مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا ہے اور بھارتی فورسز آئے روز مظالم ڈھارہی ہیں۔ ان تمام عوامل کو چھپانے کیلئے مواصلاتی نظام کو بھی مکمل بند کیا گیا ہے تاکہ بھارت کا خوفناک چہرہ سامنے نہ آسکے مگر عالمی برادری کو انسانی بنیادوں پر سوچنا ہوگا کہ ان کیلئے اہم کیا ہے اگر ان کے اپنے مفادات ہی اہمیت رکھتے ہیں توعالمی امن کا بیڑا اٹھانے کے دعوے کرکے مظلوم اقوام کے زخموں پرکیوں نمک پاشی کی جارہی ہے۔