افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا سے معاہدے پر دستخط اس مہینے کے آخر تک متوقع ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق قطر میں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ امریکا طالبان معاہدے پر دستخط کا اعلامیہ جلد جاری کیا جائے گا۔دونوں جانب سے معاہدے پر دستخط اس مہینے کے آخر تک متوقع ہیں اور اس سے قبل فریقین پُرتشدد کارروائیاں روکنے کے حوالے سے اعلامیہ جاری کریں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال سے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جس کے ذریعے امریکا اس طویل ترین جنگ سے چھٹکارہ حاصل کرناچاہتا ہے۔اس دوران امن مذاکرات کے متعدد دور چل چکے ہیں اور گزشتہ سال ستمبر میں فریقین معاہدے کے قریب بھی پہنچ گئے تھے تاہم کابل حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہونے کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں سے شیڈول ملاقاتیں بھی منسوخ کردی تھیں۔بعد ازاں دسمبر 2019 میں مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا لیکن بگرام ائیر بیس پر ہونے والے حملے کے بعد مذاکرات پھر معطل ہوگئے تاہم یہ مذاکرات ایک بار پھر شروع ہوئے۔چند روز قبل امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے طالبان کے ساتھ 7 روزہ جنگ بندی پر متفق ہونے کی تصدیق کی تھی۔امریکی وزیر دفاع نے اس بات کی وضاحت نہیں کی تھی کہ طالبان کے ساتھ یہ جنگ بندی کب سے شروع ہو گی تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم امن معاہدہ کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق طالبان ذرائع کا کہنا ہے جنگ بندی کا اعلامیہ دو دن کے اندر کسی بھی وقت جاری ہو سکتا ہے اور جنگ بندی کی ممکنہ تاریخ 22 فروری ہو گی جس کے بعد پُرامن ماحول ایک ہفتے تک جاری رہے گا جس میں دونوں جانب سے کسی قسم کی پُرتشدد کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔ایک ہفتے تک پُر امن ماحول کے قیام کے بعد امن معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔امریکہ اس وقت اپنی پوری کوشش کررہا ہے کہ جلد ازجلد مذاکرات کامیابی کی طرف بڑھیں تاکہ امریکی اور اس کے اتحادی افواج کا انخلاء یقینی ہوسکے جس کیلئے مذاکرات میں اہم پیشرفت ہورہی ہے۔
اس سے قبل پاکستان نے متعدد بار افغان امن عمل پر زور دیا ہے اور اپنے مکمل تعاون کی پیشکش بھی کرچکا ہے کیونکہ افغانستان میں جاری جنگ کا حل پُر امن طریقے سے ہی نکالنا ضروری ہے اب تک تشدد کی وجہ سے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوسکے بلکہ پورا خطہ بدامنی کا شکار ہوگیا گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان عدم استحکام کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ عالمی طاقتوں کی افغانستان میں مداخلت ہے اگر عالمی رویہ افغانستان کیلئے تبدیل ہوجائے اوروہ اپنی پالیسیوں پر غور کریں تو یقینا اس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہونگے چونکہ افغانستان میں حکومت سازی سے لیکر دفاعی اور خارجہ پالیسی پر عالمی مداخلت رہی ہے جس کی وجہ سے مذاکرات کامیابی کی طرف نہیں بڑھے۔ ایک خود مختار اور آزاد حکومت کی تشکیل کے ذریعے ہی افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوسکتا ہے جس کیلئے خود عالمی طاقتوں کو اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا تاکہ افغانستان کے تمام فریقین امن عمل کا حصہ بن سکیں وگرنہ مذاکرات وقتی طور پر کامیاب ہونگے اور جنگ بندی ہوگی مگر پھر ایک بار شورش پیدا ہوگا جو طول پکڑتا جائے گا جس سے نہ صرف افغانستان بلکہ دیگر ممالک بھی براہ راست متاثرہونگے۔ امید ہے کہ دیرپاامن کیلئے امریکہ سمیت دیگر عالمی ممالک ماضی کی پالیسیاں ترک کرینگے۔