|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2020

بلوچستان کی پسماندگی اور بدحالی اپنی ایکالگ تاریخ رکھتی ہے جس کا رونا ہروقت سب سے زیادہ ملک کی بڑی جماعتوں نے رویا ہے شاید اتنا افسوس قوم پرست اورصوبہ کی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے نہیں کیا ہوگا جن کا ایک بڑا ووٹ بینک بلوچستان میں موجود ہے اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ان کے نمائندگان منتخب ہوکر آتے ہیں۔یہ بدقسمتی بھی رہی ہے کہ بلوچستان میں ایک سیاسی جماعت کی حکومت کبھی نہیں رہی ہمیشہ مخلوط حکومت تشکیل پائی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایسے چہرے حکومتوں میں نظرآتے ہیں جوکبھی اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ بلوچستان جتنا پسماندہ صوبہ ہے یہاں پر حکومت کا حصہ یا اتحادی ہونا اتنا ہی فائدہ مند رہتا ہے گویا عوامی نمائندہ کی بجائے ایک پُرکشش کاروبار میں سرمایہ کاری کی گئی ہو۔

بہرحال یہ بات سب پر صادق نہیں آتی، البتہ یہ ایک ایسا کڑوا سچ ہے جسے بلوچستان کی چند سیاسی شخصیات برداشت نہیں کرتے۔المیہ یہ بھی ہے کہ عرصہ دراز سے حکومتی بینچوں پر بیٹھے انہی شخصیات کے حلقے سب سے زیادہ پسماندہ علاقوں میں شمار ہوتے ہیں باوجود اس کے کروڑوں روپے صرف ایم پی اے فنڈ کے کھاتے میں وصول کرتے آئے ہیں جبکہ ترقیاتی مد کے رقم کا حساب وکتاب کا ریکارڈ ہی کچھ اور ہے۔ اگر کہاجائے کہ ریکارڈ توڑ ترقیاتی کاموں کے بجائے کرپشن ہوئی ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں اگر یہاں کے منتخب نمائندگان ہی اپنے منصب اور حلقے کے ساتھ ایمانداری کرتے تو آج بلوچستان کی صورتحال مختلف ہوتی،ہاں یہ ضرور دیکھنے کو ملا ہے کہ سارا ملبہ ماضی کی حکومتوں اور وفاقی حکومتوں پر ڈالا گیا کہ بلوچستان کو پسماندہ انہوں نے رکھا جس پر مختلف تحاریر انہی صفحات پر ہم بھی لکھ چکے ہیں جو کسی حد تک تو ٹھیک ہیں مگر اس سے کئی گناسچ کرپشن کے ریکارڈ کے پیچھے دب کر رہ گئے ہیں جس میں سیاسی شخصیات اور آفیسران زیادہ ماہر ہیں۔

جو اب بلوچستان کی سیاست کے روایات کا حصہ بن چکا ہے کہ”کرے کوئی بھرے کوئی“ والی مثال ہے مگر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے ہی لوگوں کو پسماندہ اور محروم رکھتے ہوئے ان کے حقوق غضب کئے جائیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان کے میگا منصوبوں کے چلنے کے باوجود بلوچستان کے عوام ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ غربت، ناخواندگی، صحت سمیت تمام تر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔یہ بات الگ ہے کہ جسے زیادہ میڈیا میں اجاگر نہیں کیاجاتا،یہاں عام طور پر اندرون بلوچستان کے صحافی رپورٹ کرتے تھک چکے ہیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو ان خبروں کااثر بھی ختم ہوچکا ہے یا پھر کس کی بے حسی کہاجائے جوکہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ بلوچستان کے وسائل کو کس نے بے دردی کے ساتھ لوٹا گیا جن کا احتساب یقینی ہو کیونکہ احتساب کا عمل ملک میں جس تیزی کے ساتھ شروع ہوا تو یہ امید عوام میں پیدا ہوئی کہ سیاسی شخصیات نیب سے خوفزدہ ہوکر اب تو کم ازکم بلوچستان کے خزانے کو لوٹنے سے گریز کرینگے جس کی شدت اب بھی محسوس کی جارہی ہے کہ بلوچستان میں احتساب کا وقت کب آئے گا اور احتسابی عمل شروع ہوکر کرپٹ عناصر کو جیل تک پہنچانے تک ختم ہوجائے اور بلوچستان کرپشن فری کہلاتے ہوئے ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ امید پر دنیا قائم ہے۔

بلوچستان کے غریب اور بے بس عوام آس لگائے بیٹھے ہیں۔ امید اس بات کی کرتے ہیں کہ بلوچستان میں موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجودہ ٹکراؤ جو اس وقت امن وامان سمیت دیگر معاملات پر ہے اس سے جلد فراغت کے بعد تمام منتخب ارکان اس پر اتفاق کرینگے کہ بلوچستان میں اس وقت جتنے منصوبے چل رہے ہیں اور جن کی بنیاد رکھی جارہی ہے ان کا ریکارڈ اکٹھاکرکے کرپٹ لوگوں سے لوٹی ہوئی رقم واپس لیاجائے گا جبکہ ہونے والے کرپشن کو نہ صرف روکا جائے گابلکہ من پسند افراد کو دیئے گئے ٹھیکے واپس لیکر ایمانداری کے ساتھ بلوچستان کو ترقی دیا جائے گا جس میں کسی سیاسی جماعت کے نمائندگان کی سفارش اور فرمائش کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔شاید یہ تاریخ اسی دورمیں رقم ہوویسے بھی بلوچستان روایات کی امین سرزمین ہے اور عوامی نمائندگان اس کی لاج رکھتے ہوئے ملک کے دیگر صوبوں سے ہٹ کر اپنی پہچان منوائیں گے۔