دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی قوم ہو جسے اپنی مادری زبان سے محبت نہ ہو، اپنی زبان، کلچر اور روایات پر فخرنہ ہو۔ پاکستان میں بھی بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں اور مختلف اقوام اپنے کلچر، تاریخ اور تہذیب پر فخر کرتے ہیں جبکہ دیگر اقوام کے کلچر اور روایات کا احترام کرنا خود قومی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت بولی جانے والی مادری زبانوں کو کس حد تک سرکاری سطح پر اہمیت حاصل ہے اس کا اندازہ پنجابی زبان سے لگایا جاسکتا ہے۔
کیونکہ پنجابی زبان پر شاید کسی حکومت نے اتنی سرمایہ کاری نہیں کی ہے جس کا طعنہ ہمیشہ پنجاب کو ملتا ہے البتہ پنجاب کے بڑے دانشوروں سے لیکر پڑھے لکھے طبقے کا گلہ شکوہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ پنجابی زبان کی ترقی اور ترویج کیلئے کوئی خاص قدم کسی حکومت نے نہیں اٹھایا، صرف پنجابی قوم کے نام کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا گیا جس میں کوئی شک نہیں البتہ پنجابی زبان کو فروغ دینے کیلئے وہاں کے ادیبوں، دانشوروں سمیت مختلف مکتبہ فکر اور شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے خود اپنی ذمہ داری سے پنجابی زبان کیلئے کام کیا جس کی وجہ سے پنجابی زبان پھلتا پھولتا گیا۔
آج بھی پنجاب میں مادری زبان میں اخبارات، رسالے سمیت دیگر لٹریچر شائع ہوتے ہیں۔ سندھ میں تو سندھی زبان کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے جو ہر سرکاری اور پرائیویٹ اسکول میں پڑھایا جاتا ہے اس لئے کراچی سمیت سندھ بھر میں سندھی روانی کے ساتھ نہ صرف بولی جاتی ہے بلکہ اس کے لٹریچر کو بھی آسانی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان اور کے پی کے جہاں سب سے زیادہ قوم پرستی کی سیاست کی جاتی ہے مگر یہی قوم پرست اقتدار میں آکر مادری زبان کو بھول جاتے ہیں۔
بلوچستان جوکہ پاکستان کا نصف حصہ ہے جس کی آبادی منتشر اور وسیع تر علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ بلوچ اور پشتون علاقوں میں مادری زبان میں تعلیم نہ دینا ظلم کے مترادف ہے کیونکہ بچے اپنی مادری زبان میں بہت آسانی سے سیکھتے ہیں کیونکہ وہ سارا دن اپنی قومی زبان میں بات کرتے ہیں، بچے جب اسکول میں پرائمری کی سطح پر تعلیم شروع کرتے ہیں تو انہیں اردو، انگلش اور عربی کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں اب اس میں لفظوں کے معنی سمجھنے کیلئے بچوں کو ذہنی کرب سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ اکثر لفظوں کے معنی ان کو سمجھ ہی نہیں آتے۔جس طرح نصاب کو ترتیب دیا جاتا ہے اس سے بچوں کی تعلیم شدید متاثر ہوتی ہے۔
دنیا میں تعلیم کیلئے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں خود مشکلات پیدا کی جاتی ہیں البتہ سابقہ دور حکومت میں مادری زبان کو سرکاری اسکولوں میں نافذ کرنے کی اچھی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے چند علاقوں میں مادری زبانوں میں تدریسی عمل جاری ہے مگر مکمل طور پر سرکاری سطح پر تدریس کو نافذ کرنا موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔قوم پرست جماعتوں نے اپنی طرف سے مادری زبانوں کو فروغ دینے کیلئے کسی حد تک سرمایہ کاری کی ہے جس کی مثال آج اکیڈمیز اور لائبریریوں کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے جو خاص کر بلوچی لٹریچر اور زبان کیلئے انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں۔
بہرحال سب سے پہلی ذمہ داری ہمارے دانشوروں، ادیبوں سمیت دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی بنتی ہے کہ وہ مادری زبان میں تعلیم کے حصول کے حوالے سے ایک مہم شروع کریں اور اس وقت تک تحریک چلائیں جب تک یہ مکمل طور پر نافذ نہیں ہوجاتا۔ گزشتہ روز لیاری لٹریری فورم کی جانب سے کراچی میں بلوچی اور براہوئی زبان کے حوالے سے شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی میں تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچ قوم کی دونوں زبانوں کی اہمیت کو نہ صرف اجاگر کیا گیا بلکہ ساتھ ہی بلوچ اور براہوئی کی تفریق کی سازش کو بھی ناکام بنانے کیلئے ایک بہترین قدم اٹھایا گیا جوکہ کراچی جیسے ملٹی نیشنل سٹی میں اپنی زبان کو زندہ رکھنے کیلئے کسی انقلابی قدم سے کم نہیں۔ضروری ہے کہ مادری زبانوں کے تحفظ کیلئے قوم کے تمام مکتبہ فکراپنا کردار ادا کریں تاکہ قدیم قومی تہذیب، تاریخ، کلچر اور زبان کو زندہ رکھا جاسکے بجائے یہ کہ کسی سے گلے شکوے کیے جائیں، خود اقوام کو اپنی ذمہ داری اٹھانی ہوگی کہ اس ثقافتی جنگ میں وہ خود اپنی زبان اور قدیم تہذیب کو کس طرح زندہ رکھ سکتے ہیں۔