ملک میں اظہار رائے کی آزادی کی جدوجہد ایک طویل تاریخ رکھتی ہے جہاں جمہوریت، ترقی پسند سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے سیاسی اکابرین، سول سوسائٹی، وکلاء تنظیموں، ٹریڈیونینز، طلباء تنظیموں نے تحریکیں چلائیں وہیں صحافتی برادری نے بھی اس میں کلیدی کردار ادا کیا اور صف اول میں رہتے ہوئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ جب بھی ملک میں جمہوریت اور استحکام کی مثال دی جاتی ہے تو اس میں ملک کے نامور صحافیوں کا ذکر ضرور آتا ہے کہ کن حالات سے گزر کر انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا جس کی وجہ سے آج ملک میں صحافتی شعبہ نے نہ صرف ترقی کی بلکہ اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ملک میں جمہوری اور غیر جمہوری ادوار میں میڈیا کو کسی طرح بھی زیرعتاب لانے کیلئے ہرقسم کے حربے آزمائے گئے، مختلف قوانین لاگو کئے گئے تو کبھی دیگر طریقوں سے صحافیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی مگر حکومتی مدت اتنی طویل نہیں رہی کہ وہ میڈیا کی آواز کو دبانے میں کامیاب ہوسکے۔
آج بھی میڈیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آزادی صحافت پر یقین رکھتے ہوئے قلم کی حرمت کو بلند رکھے ہوئے ہیں اور انہی صحافتی رہنماؤں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جنہوں نے میڈیا کی آزادی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ مگر بدقسمتی سے ملک میں سیاسی جماعتوں نے میڈیا کو صرف اپنے تشہیری مہم اور تعریفوں کیلئے استعمال کرنے کیلئے اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش کی،گویا انہیں اپنی حکومتوں پر تنقید سننا گوارہ نہیں رہا جہاں انہیں اپنی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے تھی مگر انہوں نے اپنے بیڈگورننس کو چھپانے کیلئے میڈیا کا گلہ گھونٹ کے رکھ دیا۔آج بھی اپوزیشن میں بیٹھ کر میڈیا کی آزادی کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کے ادوار کا جائزہ لیاجائے تو میڈیا کے حوالے سے ایسی پالیسیاں دکھائی دینگی کہ میڈیا ہاؤسز حکومت کی تعریفوں کے پُل باندھتے رہے اور سب کچھ اچھا کا راگ الاپتے رہے۔
لیکن اگر ان پالیسیوں پر کوئی عمل نہیں کرتا تو سب سے آسان فارمولایہ اختیار کیاجاتا کہ میڈیا کو مالی مشکلات سے دو چار کرنے کے لیے سرکاری اشتہارات کی بندش کا حربہ استعمال کیاجاتا تاکہ میڈیا مالی بحران سے دوچار ہوکر بندش کا شکار ہوجائے یا پھر خود اپنی سمت درست کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں کو اپنائے۔ریکارڈ توڑ اشتہارات ایسے میڈیا ہاؤسز کو دیئے گئے جو دن رات حکومت کی تعریف میں مصروف رہے بجائے یہ کہ حقیقی میڈیا ہاؤسز کو ان کا حق دیاجاتا۔حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے حقیقی میڈیا ہاؤسز مالی بحران کا سامنا کرتے ہوئے یہاں تک مجبور ہوئے کہ انہوں نے اپنا نیٹ ورک محدود کردیا یا پھر بعض صحافیوں کو ملازمتوں سے فارغ کرنا پڑا، چند میڈیا ہاؤسز نے تو حکومتی احکامات کے تحت قابل اور ہونہار صحافیوں کو ملازمتوں سے بغیر کسی نوٹس کے نکال دیا تاکہ ان کے کاروبار پر کوئی اثر نہ پڑے مگر حقیقی میڈیا ہاؤسز اور ایماندار صحافیوں نے اظہاررائے کی آزادی سے دستبردار ہونے کی بجائے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سرخرو ہوگئے اور عوام کو صحافتی اصول اور اقدار کے ذریعے معلومات سے آگاہ کیا۔آج میڈیا ترقی کرتے ہوئے ڈیجیٹل دورمیں تبدیل ہوچکا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو معلومات فراہم کی جارہی ہیں مگر افسوس کہ ایک بار پھر مختلف قوانین کے ذریعے سوشل میڈیا کو پابند بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
موجودہ حکومت اس وقت پی ٹی آئی کی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے قائدین نے خود میڈیا کی تعریف کی بلکہ ان کے کردار کو بھی سراہا مگر آج انہی کے دور حکومت میں ایسے قوانین لائے جارہے ہیں جس سے اظہار رائے کی آزادی متاثر ہوسکتی ہے جس کا سامنا میڈیاہاؤسز پہلے بھی کرچکے ہیں مگر حکومتی ساخت بھی متاثر ہوتا ہے۔ امید ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت خاص کر وزیراعظم میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کی بجائے موجودہ بحران سے میڈیا کو نکالنے میں کردار ادا کریں گے کیونکہ میڈیا کا بنیادی مقصد عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ہے ناکہ اپوزیشن بن کر محض بلاجواز تنقیدکرنا ہے۔
لہٰذا اس ٹکراؤ کو ختم کرتے ہوئے میڈیا کو اپوزیشن نہ سمجھتے ہوئے ملک کے اہم ستون کا درجہ دیا جائے کیونکہ موجودہ میڈیا بحران کی وجہ سے اس صنعت کو شدید نقصان پہنچاہے جس کا براہ راست اثر ورکرز پر پڑا ہے جنہیں ملازمتوں سے نکالا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر قوانین کے لاگو ہونے سے مزید مشکلات پیدا ہونگی جس کا متحمل میڈیا صنعت نہیں ہوسکتا جو خود پہلے سے ہی شدید ترین بحرانات کا شکار ہے۔ صحافتی برادری نے ہمیشہ ملک میں جمہوریت اور ترقی کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور آگے بھی اپنے فرائض ادا کرتی رہے گی اور حکومت سے بھی یہی توقع ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی روش کو نہ اپناتے ہوئے اظہا ررائے کی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے صحافتی برادری کو اعتماد میں لے گی۔