ایران میں کرونا وائرس پھیلنے اور وہاں ہونے والی اموات سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں خوف کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ ابتدائی طور پر بلوچستان سے ملنے والی ایرانی سرحد کو دونوں جانب سے سیل کردیا گیا ہے جس کی تصدیق ایرانی حکام اور بلوچستان کی صوبائی حکومت نے کی ہے۔ گزشتہ روز چیف سیکرٹری بلوچستان نے اس حوالے سے ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا جس میں کرونا وائرس کے حوالے سے اقدامات اور بلوچستان کو محفوظ بنانے کے حوالے سے آفیسران اور سیکیورٹی حکام سے بریفنگ لی تھی جس پراجلاس شرکاء نے اہم فیصلے بھی کئے تھے جن میں خاص طورپر ایران کے ساتھ آمد ورفت کو مکمل طور پر بند کرنا شامل ہے تاکہ کرونا وائرس سے متاثرہ کوئی بھی شخص سرحد پار کرکے بلوچستان میں داخل نہ ہوسکے،اسی طرح پیٹرولنگ، اسمگلنگ کا راستہ اپنانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔
چیف سیکریٹری کا ایران کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھاکہ ایران میں وائرس موجود ہے اور اموات بھی ہوئے ہیں اگر وائرس پاکستان پہنچ گیا تو بہت تباہی ہوگی، اجلاس کے دوران چیف سیکریٹری کو بریفنگ دی گئی کہ پانچ ہزار زائرین پاکستان سے ایران جاچکے ہیں جنہیں واپس لانے کیلئے اقدمات کرنے ہونگے، زائرین یکم مارچ سے 15 مارچ تک واپس آئینگے۔اجلاس شرکاء کا کہنا تھا کہ زائرین صرف کوئٹہ سے نہیں بلکہ ملک بھر سے تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پورے ملک کیلئے یہ خطرے کا باعث بن سکتا ہے عراق سمیت دیگر ممالک نے بھی ایران کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کردی ہیں اور فی الحال کسی کو ایران جانے کی اجازت نہ دینے کافیصلہ کیا گیا ہے۔ چیف سیکرٹری بلوچستان کا کہناتھاکہ یہاں سے کسی کو جانے نہیں دیا جائے گا تو وائرس کی منتقلی کا تدارک ممکن ہوگا جبکہ ایران میں موجود پاکستانی زائرین کیلئے ایران سے بات چیت کی جائے گی۔ سرحدی علاقوں میں طبی معائنہ کیلئے مزید 20 ڈاکٹربھیجنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
چیف سیکریٹری کا ہدایات جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 19 فروری کو ایران سے آنے والے زائرین کا بھی معائنہ کیاجائے گا جبکہ ایران سے آنے والے زائرین کا معائنہ کرنے کے بعد 14 روز سرحدی علاقے میں رکھا جائے گا۔دوسری جانب میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ ایران میں کرونا وائرس سے اموات کے بعد وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر سرحدی علاقوں میں ایمرجنسی لگادی گئی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے وائرس سے متعلق وزیر اعظم عمران خان سے بھی رابطہ کیا ہے۔ حکومت بلوچستان کے مطابق فوری طور پر دس ہزار ماسک سرحدی علاقوں میں بھجوادیئے گئے ہیں جبکہ صوبائی حکومت ہائی الرٹ ہے اور وفاقی حکومت کا مکمل تعاون بھی حاصل ہے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ جو زائرین ایران گئے ہیں ان کو ایران میں ہی رکھیں گے جب تک کلیئرنس سرٹیفکیٹ انہیں ایران کی جانب سے نہیں دیا جائے گا انہیں بلوچستان آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ ایران میں موجود زائرین کے خاندان سے تعاون کی بھی درخواست کی گئی ہے۔جبکہ اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں کرونا وائرس کا کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے البتہ احتیاطی تدابیر کے حوالے سے مزیداقدامات اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے،تفتان میں 100 بیڈ پر مشتمل خیمہ اسپتال بھی بنایا گیا ہے اور ساتھ ہی کھانے پینے کی اشیاء کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔
بلوچستا ن کی طویل سرحدی پٹی ایران سے ملتی ہے جو کہ ایک الارمنگ صورتحال ہے جس کو کنٹرول کرنا اتناآسان نہیں جس کیلئے ضروری ہے کہ اس وقت وفاقی حکومت ہر حوالے سے صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کرے کیونکہ کسی بھی طرح سے اس وائرس کو پاکستان میں پھیلنے سے روکنا ضروری ہے۔اس وقت دنیا بھر کے ممالک اس وائرس کو روکنے کے حوالے سے مکمل طور پر الرٹ ہیں اور تمام تر وسائل اس پر خرچ کررہے ہیں ضروری ہے کہ تمام سرحدوں کی نگرانی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں،زمینی اور سمندری راستوں پر پیٹرولنگ کو تیز کیا جائے تاکہ کوئی بھی شخص غیر قانونی طریقے سے پاک ایران سرحد پارکرکے بلوچستان میں داخل نہ ہوسکے۔