|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2020

کروناوائرس اس وقت ایک بڑاچیلنج بن چکا ہے دنیا کے بیشتر ممالک نے اس وائرس کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا شروع کردیئے ہیں، اسپتالوں میں مکمل ایمرجنسی نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ تمام صحت کے مراکز کو فعال کرتے ہوئے سہولیات سے آراستہ کیا گیاہے کیونکہ جس تیزی کے ساتھ یہ مہلک مرض پھیل رہا ہے، اس نے دنیا کو خوفزدہ کردیا ہے۔

بہرحال سب سے پہلے اس وائرس کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے سخت ترین انتظامات کئے جارہے ہیں، زمینی، ہوائی اور سمندری راستوں پر کڑی نگرانی کی جارہی ہے ساتھ ہی طبی عملہ ان مقامات پر تعینات کردیئے گئے ہیں اور اس سے نمٹنے کیلئے ادویات سمیت دیگر طبی آلات کی سہولیات سے آراستہ عملہ کوتربیت بھی دی گئی ہے کہ کس طرح سے کرونا وائرس کے مہلک مرض کو روکاجاسکتا ہے اور متاثرہ افراد کو فوری طور پر ایمرجنسی وارڈ منتقل کرکے لاج معالجہ کیاجارہا ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صحت کی سہولیات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے عملہ کو باقاعدہ تربیت تو دی جاتی ہے مگر ساتھ ہی صحت کے مراکز کو ہر وقت فعال رکھاجاتا ہے اس لئے دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے خطرناک وبائی امراض سے نہ صرف بروقت نمٹا جاسکتا ہے بلکہ اس کے خاتمے کو یقینی بنایا جاتا ہے،باقاعدہ جدید طرز کے لیب بنائے گئے ہیں جہاں پر وبائی امراض کی تشخیص کیلئے ماہرین چوبیس گھنٹے ریسرچ میں لگے رہتے ہیں اس لئے ان ممالک میں اموات کی شرح کم ہونے کے ساتھ ساتھ وبائی امراض کا خاتمہ یقینی ہوجاتا ہے۔

بہرحال چین اور ایران میں اس وقت صورتحال گھمبیر ہے مگر وہ اپنے وسائل کے ذریعے کرونا وائرس میں مبتلا متاثرین کا علاج کررہے ہیں اور وائرس کے خاتمے کیلئے دیگر ممالک کے ماہرین سے مدد بھی لی جارہی ہے۔مگر ایران پر عالمی پابندیاں خاص کر امریکہ کی جانب سے لگائے گئے بندش کی وجہ سے وہاں صورتحال مختلف ہے جس پر عالمی برادری کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایران کی مدد کرنی چاہئے اسی طرح امریکہ کو اس مشکل وقت میں ایران کی مدد کیلئے آگے بڑھنا چاہئے جس طرح امریکہ اور عالمی ممالک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امن کے قیام کیلئے کوشاں رہتے ہیں تو اس وقت انسانی جانوں کو لاحق خطرات سے نکالنے کیلئے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوری طور پر اپنے ماہرین سمیت طبی آلات اور ادویات ایران میں بھیج دینے چاہئیں تاکہ انسانیت کا بول بالاہوسکے کیونکہ ممالک کے درمیان دشمنیاں خارجی اور داخلی پالیسیوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ کسی طرح سے بھی ایسے اقدام سے گریز کیاجائے جس کی وجہ سے دنیا کا امن تباہ ہو۔

اسی طرح وبائی اور خاص کرمہلک امراض جو انسانی جانوں کیلئے خطرات کا سبب بنتے ہیں جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں جسے انسانی بحران کہاجاتا ہے اس کو روکنے کیلئے مل کر کوشش کرنی چائیے کیونکہ ممالک کے درمیان پالیسی پر اختلاف کیاجاسکتا ہے مگرانہی ممالک میں موجود انسان آپس میں محبت چاہتے ہیں کیونکہ انسانیت سے بڑھ کر کسی شے کی اہمیت نہیں ہوتی اور اسی بنیادپر دنیا آج بھی قائم ہے جہاں مختلف زبان، نسل، مذاہب، کلچر سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں مگر ان کے درمیان ایک ہی رشتہ انسانیت کا ہے جو انہیں قریب لاتا ہے اور اسی کو ہر مذہب میں فوقیت حاصل ہے۔ آج جس طرح سے دنیا کے بڑے ممالک انسانیت کی بنیاد پر امن قائم کرنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں تو ایسے وقت میں بھی انہیں اپنا کردار ادا کرنا چائیے تاکہ سرحدوں کی تفریق کے بغیر انسانیت سے محبت کا پیغام آگے بڑھ سکے۔