|

وقتِ اشاعت :   February 29 – 2020

مچھ: اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین و جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنماء مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ مومن کے سفر کا جو منزل ہے وہ خالق ہے جو راستہ ہے وہ ستھر ہے جو نقش قدم ہے وہ سیرت ہے ایک راستہ یہ ہے جو سیدھا خالق پہ جاتا ہے دوسرا راستہ کفر کا ہے جو سیدھا خواہش پہ جاتا ہے اور ان دونوں راستوں کے متعلق کسی بھی قسم کے شک و شبہ نہیں ہے امت مسلمہ کو اتحاد کی درس دینے والے یہ دراصل خود ایک اور سیدھے راستے کے لوگ نہیں جھوٹ مومن بولتا ہے۔

اور نہ ہی کافر مغربی دنیا میں جھوٹ کوکوئی جانتا بھی نہیں وہاں یہ لفظ بچوں کیلئے بڑا عجوبہ ہوتا ہے مہذبذب لوگ اپنے مفاد کیلئے ادھر ادھر پھرتے ہیں ظاہری طورپر یہ سامنے سے ایک شخصیت اور قول ایک ہوتا ہے لیکن اس کا عمل بالکل اس کا الٹ ہوتا ہے انسانوں کا یہ طبقہ ان کے ہر مراحلے کی شخصیت اور ان کے دوسرے مرحلے کی شخصیت کو جھٹلاتا ہے یہ وعدہ خلافی فریب اور دھوکا بھی دیتے ہیں دراصل یہ منافق ہوتے ہیں ان خیالات کا اظہار انھوں نے مچھ میں منعقد شعور و آگاہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس میں جمعیت علماء اسلام کچھی نصیر آباد و مختلف اضلاع کے کارکنوں مچھ کے قبائلی معززین معتبرین علاقے کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کارکنوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اسموقع پر مچھ پولیس کیجانب سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گیے تھے کارکنوں نے مولانا محمد خان شیرانی کا مچھ پل پر فقیدالمثال استقبال کیا اور قافلے کی صورت میں جلسہ گاہ پہنچائی کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام کچھی کے سابقہ ضلعی امیر حاجی منگے راہیجہ ضلعی نائب امیر مولانا محمد انور سمالانی حاجی محمد ہاشم شاہوانی جمعیت نصیر آباد کے رہنماء مولانا محمد عالم مفتی نصراللہ گلستانی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔

مولانا محمد خان شیرانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا میرے ساتھیوں کا جو طریقہ کار ہے ہم اللہ کے جانب بھی لوگوں کو بصیرت کی روشنی میں معقول دلائل کے زریعے بلاتے ہیں فقاء فرماتے ہیں اگر کسی بھی معاملے میں کوئی بھی فیصلہ دنیا میں ہو پہلے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر فیصلہ دیا جائے مومن کے سفر کا جو منزل ہے وہ خالق ہے اور جو راستہ ہے وہ ستھر ہے جو نقش قدم ہے وہ سیرت ہے نبی کریم ﷺفرماتے ہیں کہ تم جنت ضرور جاؤں گے اللہ کے جانب سے جنت کے راستے میں تمہارے لیے کسی بھی قسم کی کوئی رکاؤٹ نہیں ہے مگر یہ ہے۔

کہ آپ لوگ خود جنت جانا نہ چاہوگے جو میرے بتائے ہوئے زندگی سے ہٹ کر زندگی گزارتا ہے تو وہ خود جنت جانے کیلئے آمادہ نہیں ہے زندگی کا سیدھا راستہ ایک مومن کا ہے جو سیدھا خالق پر جاتا ہے دوسرا سیدھا راستہ کفر کا ہے جو سیدھا خواہش پر جاتا ہے یہ دونوں سیدھے بھی ہے اور ان کے متعلق کسی بھی قسم کے شک و شبہ نہیں ہے یہ جو آج کل ہمارے حکومتوں نے کھبی کھبار آوازیں اٹھتی ہے کہ مسلمانوں کو اتحاد کرنا چائیے اور کوئی نئے مسائل کے بارے میں حل تلاش کرنا چائیے یہ دراصل ایک راستے اور سیدھے راستے کے لوگ نہیں ہے۔

کیونکہ قانون یہ بنیادی طورپر یاتو یونانی یا سریانی زبان کا لفظ ہے اگر عربی یا فارسی میں اس کا ترجمہ کیاجائے ترجمے میں وہ مصتر ہوجاتا ہے مصتر کا معنی کاغذ کی صفحے پر دو نکتے فرض کردے اور ان دو نتکتوں کو آپ سیدھے لکھیر پر ملانا چائے تو اس سیدھے لکھیر کے کھینچنے پرانے زمانے میں ایک گول قسم کا لکھڑی ہواکرتے تھے تو اس آلہ کو فارسی اور عربی میں مصتر کہتے ہیں یعنی سیدھے ستھر کھینچنے کا آلہ یونانی اور سریانی زبان میں اس کو قانون کہتے ہیں یعنی راستہ بھی سیدھا ہے ایک بھی ہے معلوم بھی ہے دوسرے قسم کے انسان وہ ایسے ہوتے ہیں۔

یہ خواہش مادی مفاد اور مقاصد کیلئے ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں لہذا ان کاراستہ بھی سیدھاخواہش پر جاتا ہے قو ل وعمل میں تفریقانتشار تضاد نہ ہو آمنے و سامنے سے جسم قسم کی شخصیت دیکھتا ہے پیٹ پیچھے بھی ایسے شخصیت رہے اس میں کسی قسم کا تفریق پیدا نہ ہو اس کی جو آج کی شخصیت ہے وہی شخصیت اس کی آنیوالے کل ہوانھوں نے کہا کہ جھوٹ مومن بولتا ہے نہ ہی کافر مشرکین مکہ کفار تو تھے کیا وہ جھوٹ بولتے تھے علماء کرام اور تاریخ میں حبشہ کے ہجرت پر صحابہ کرام تشریف لے گئے تھے تو قریش نے انکی واپسی کیلئے ابو سفیان کی سربراہی میں جو وفد بھیجا تھا اگر آپ ان تاریخ کو پڑھے تو یہ اندازہ لگاسکتے ہیں۔

جھوٹ مومن اور نہ ہی کافر بولتے ہیں آج کی مغربی دنیا میں جھوٹ سے کوئی واقف نہیں وہاں کے بچوں کیلئے یہ عجوبہ ہوتا ہے وہاں فریب اور دھوکا ممکن نہیں انھوں نے کہا کہ متقی جو بعد میں مومن یا کافر بن جاتے ہیں دوسرا طبقہ وہ ہے جن کی زات متضاد شخصیتوں کا مراکب ہوتا ہے یعنی اس کی زات ظاہری شخصیت ایک ہوتی ہے اور اس کا قول ایک ہوتا ہے اور اس کا عمل بالکل اس الٹ ہوتا ہے یہ اپنے مفاد کیلئے کھبی فریب دھوکا بھی دیتے ہیں۔

یہ مخالفت یا مخاصمت پر آئے تو انسانیت سے نکلتے ہیں خیر خواہی سے خود غرضی کی جانب نکلتے ہیں مہذبدب لوگ کسی ایک راستے پر نہیں جاتے وہ یکسو نہیں ہوتے تو انسانیت کا جو اصل مشکل ہے وہ اس طبقے میں ہے جن کا زندگی کا راستہ ایک نہیں بلکہ زندگی کی سفر کو بھول چکے ہیں مہذبذب انسانوں کا پہچان بڑا مشکل ہوتا ہے آپ ایسے یہ نہیں پہچان سکتے یہ انسان ہے یا حیوان ہے دوست ہے یا دشمن خائن ہے یا دیانتدار انھوں نے کانفرنس کی شرکاء کو ہدایت کی کہ جھوٹ جان بھی چلی ہر مشکل صورت میں بھی نہیں بولنا چائیے کانفرنس کے آخر میں دعا کی گئی اور میزبان پروگرام کیجانب سے مہمانوں اور شرکاء کیلئے طعام کا بھی اہتمام کیا گیا تھا