|

وقتِ اشاعت :   March 1 – 2020

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں انتہا ء پسند ہندو بلوائیوں کے حملوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 42 ہوگئی۔دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں 24 فروری کو ہندو انتہا پسندوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے موقع پرمتنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد پر منظم حملے کیے تھے۔ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے یہ حملے تین روز تک جاری رہے جن میں مساجد، گاڑیوں، مکانات اور دیگر املاک کو نذر آتش کیا گیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق دہلی کے شمالی علاقوں میں مسلح جتھوں نے مسلمان نوجوانوں کو شناخت کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 42 تک جاپہنچی ہے۔

دہلی کے محکمہ صحت کے مطابق دہلی کے گرو تیغ بہادر اسپتال میں 38، لوک نائک اسپتال میں 3 اور جگ پروریش اسپتال میں ایک شخص جاں بحق ہوا جبکہ سینکڑوں افراد مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔دہلی کے تیغ بہادر اسپتال نے فسادات میں جاں بحق ہونے والے 28 افراد کی فہرست جاری کی جن کی شناخت کرلی گئی ہے، اس فہرست میں قتل ہونے والے 19 افراد مسلمان ہیں جو دہلی کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔دہلی فسادات میں غازی آباد سے گوگل پور گھر والوں سے ملنے کے لیے آئے 2 سگے بھائی عامر اور ہاشم بھی جاں بحق ہوئے ہیں جنہیں انتہاپسندوں نے تشدد کرکے قتل کیا تھا۔دوسری جانب دہلی کے شمالی علاقوں میں اب تک سیکیورٹی فورسز تعینات ہیں جبکہ دہلی پولیس نے فسادات کے مقدمات درج کرنے کی تصدیق کی ہے۔

دہلی پولیس کے ترجمان ایم ایس رندھاوا کے مطابق پرتشدد واقعات کے خلاف مختلف تھانوں میں 123 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں اور اب تک 630 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک ہزار سے زائد سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ پولیس کی فرانزک ٹیموں نے متاثرہ مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور شواہد اکٹھے کیے۔دہلی کی ریاستی حکومت کی جانب سے مسلح جتھوں کے ہاتھوں مکمل نذر آتش ہونے والے گھروں اور مساجد کے لیے 5 لاکھ بھارتی روپے جبکہ جزوی نقصان پہنچنے والے گھروں کے لیے ڈھائی لاکھ بھارتی روپے امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔ بھارتی ریاست دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ جلنے والے گھروں کی فوری بحالی کے لیے ایک دور روز میں 25 ہزار بھارتی روپے دیے جائیں گے جبکہ باقی رقم بھی جلد ہی متاثرین کو دی جائے گی۔ بھارتی دارالحکومت میں اقلیتوں پر حملوں کے خلاف پوری دنیا بول اٹھی ہے اور کئی عالمی رہنماؤں نے اِن واقعات کی شدید مذمت کی ہے۔

ترک صدر طیب اردوان نے بھی دہلی فسادات کی مذمت کی اور ایسے واقعات کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھی دہلی فسادات کی شدید مذمت کی گئی۔لندن میں مشہور موسیقار راجر واٹرز کی متنازع شہریت قانون متعارف کرانے پر بھارتی حکومت پر تنقید کی ویڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جب وہ موسیقار جنہوں نے فروغِ امن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے رکھاوہ بھی ہندوستان میں جاری قتل و غارت گری پر آواز بلند کرنے لگ جائے تو دنیا پر بیداری واجب ہوجاتی ہے۔بہرحال گجرات کے بعد دہلی کے ہولناک واقعات بھی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں کہ کس طرح سے انتہاء پسند حکومت اور اس کے جتھے کسی بھی جگہ اور مقام پر مظلوم اور نہتے اقلیتوں کو نشانہ بناسکتے ہیں۔

مودی سرکار سے یہ توقع کرنا کہ وہ اقلیتوں کو تحفظ دے گی بالکل ہی غلط ہے کیونکہ نریندری مودی ایک انتہاء پسند سوچ کے مالک ہیں جن کی سوچ جمہوریت توکجا انسانیت سے بھی گِرچکی ہے جس سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ انسانیت کا گلہ گھونٹتے ہوئے اپنے جبر کو قائم کرے گا۔ مگر اس وقت انسانیت کے علمبردار دنیا کے مہذب ممالک کو چُپ کا روزہ توڑتے ہوئے بھارت کی موجودہ انتہاء پسندحکومت کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی اور ساتھ ہی اس پر دباؤ ڈالتے ہوئے اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا کیونکہ اس وقت بھارت دنیا میں اقلیتوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ملک بن چکا ہے جو ہندو ریاست کی تشکیل جبکہ اقلیتوں کی نسل کشی پر تلا ہوا ہے۔