|

وقتِ اشاعت :   March 2 – 2020

دنیا بھر میں اب تک کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کے باعث لوگ خوف کا شکار ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک اس وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں میں سے تقریباً نصف صحت یاب ہوچکے ہیں۔کورونا وائرس کے مجموعی طور پر 85 ہزار 683 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 46 فیصد سے زائد یعنی 39 ہزار 674 افراد صحت یاب ہو کر اسپتالوں سے جا چکے ہیں جبکہ باقی 43 ہزار مریضوں میں سے 82 فیصد یعنی 35 ہزار 258 کی حالت خطرے سے باہر ہے۔اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس کے 7 ہزار 818 مریضوں کی حالت خطرے میں ہے۔کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز چین میں سامنے آئے ہیں جن کی تعداد 79 ہزار 257 ہے جبکہ دوسرے نمبر جنوبی کوریا میں 3 ہزار 150 اور اٹلی میں 889کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ہلاکتوں کے حساب سے سب سے زیادہ چین میں 2 ہزار 835 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ دوسرے نمبر پہ ایران ہے جہاں آج مزید 9 مریضوں کی ہلاکت کے بعد تعداد 43 ہو چکی ہے۔واضح رہے کہ دنیا کے 61 ممالک میں کورونا COVID-19 وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔پاکستان میں اس وقت تک صرف تین افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ان میں سے 2 کراچی میں جبکہ ایک شخص اسلام آباد میں رپورٹ ہوچکا ہے جو ایران سے آئے تھے۔ مریضوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ شہریوں کو کورونا وائرس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ احتیاط کرکے اس وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔کورونا وائرس کی عمومی علامات میں زکام اور اس کے ساتھ ساتھ بخار اور کھانسی شامل ہیں۔ تاہم کچھ مریضوں بالخصوص معمر افراد اور دائمی امراض کے شکار افراد میں یہ نمونیا کی شکل اختیار کر سکتا ہے جس کے ساتھ تھکاوٹ، سینے میں درد اور سانس لینے میں دشواری بھی شامل ہے۔

اب تک کی تحقیق کے مطابق اس کا آغاز بخار کے ساتھ ہوتاہے جس کے بعد خشک کھانسی شروع ہوتی ہے اور اس کے ایک ہفتے بعد سانس میں دشواری کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور تقریباً 20 فیصد مریضوں کو اس موقع پر اسپتال میں علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔ عام نزلہ،زکام اورکھانسی کی بیماری کا مطلب قطعاََیہ نہیں کہ وہ شخص کورونا وائرس کا شکار ہوچکا ہے کیونکہ عام طورپر یہ بیماریاں موسم کی وجہ سے ہوتی ہیں مگر جس طرح سے یہ وائرس پھیلا ہے اس سے ایک خوف کی فضا طاری ہوچکی ہے جو ایک فطری بات ہے مگر ساتھ ہی اس حوالے سے بہترین طبی ماہرین اور اپنے فیملی ڈاکٹرز سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ بروقت آپ کو بہترین طبی مشورے دے سکیں بجائے یہ کہ کسی پروپیگنڈہ یا خوف کا شکار ہونے کے بروقت اپنے ٹیسٹ کروانا ضروری ہے تاکہ علاج ممکن ہونے کے ساتھ اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔بہرحال دوسری جانب جس طرح سے وبائی امراض کے دوران مافیاز سرگرم ہوجاتی ہیں جو عوام کے خوف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وائرس کے بچاؤ کی اشیاء کو ذخیرہ کرکے انہیں مارکیٹ سے غائب کردیتی ہیں اور مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔

یہ وہ عناصر ہیں جو ہمارے معاشرے کو کرپٹ بناتے ہیں ایسے عناصر کے خلاف فوری ایکشن ضروری ہے۔اس حوالے سے صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ نے بروقت نوٹس لیتے ہوئے متعدد میڈیکل اسٹورز کو سیل کیا جو قابل تعریف ہے اور اس حوالے سے عوام کا تعاون بھی ضروری ہے اور اسی طرح میڈیا کا بھی اہم کردار ہے جوکہ ایسے حساس مسئلے سے متعلق نہ صرف آگاہی مہم چلائے بلکہ خوف کے عالم کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ مافیاز کے خلاف باقاعدہ مہم چلاتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے۔ البتہ ابھی تک خطرہ ٹلا نہیں ہے اورحالات سے مقابلہ جاری ہے مگر عوام کو احتیاطی تدابیر، ماہرین کی مشاورت اور حکومتی احکامات پر عمل کرنا چاہئے تاکہ اس وباء سے بچاجاسکے اور کم لوگ متاثر ہوں۔