|

وقتِ اشاعت :   March 4 – 2020

اس خطے میں افغانستان نے سب سے زیادہ تباہی دیکھی ہے سرد جنگ سے لیکر نائن الیون کے واقعہ کے بعد تک افغانستان جنگ کی لپیٹ میں رہا،اگر اکیسویں صدی میں کسی ملک نے انسانی بحرانات دیکھے ہیں تو وہ افغانستان ہے جہاں پر عالمی پراکسی نے ایسے پنجہ گاڑھے کہ افغانستان نے سالہا سال تک امن نہیں دیکھا،البتہ سوویت یونین کی واپسی کے بعد یہ گمان کیاجارہا تھا کہ شاید ایک نئی حکومت کی تشکیل اور عالمی طاقتوں کے درمیان موجود چپقلش میز پر ختم ہوجائے گی مگر یہ سلسلہ تھم نہ سکا، طالبان نے جب افغانستان میں انتظامی امور اور حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اس دوران نائن الیون کا سانحہ پیش آیا جس کے بعد امریکہ اور نیٹونے ملکر افغانستان پر حملہ کردیا اور یہ جنگ 19 سال تک لڑی گئی۔

اس دوران افغان امن عمل کے کئی دور بھی ہوئے مگران کے نتائج برآمد نہیں ہوئے مگر کوششیں کی جارہیں تھیں کہ کسی طرح سے بھی افغان امن عمل کا تسلسل برقرار رہے جس پر پاکستان نے ثالثی کی نہ صرف پیشکش کی بلکہ کردار بھی ادا کیا اور اس حوالے سے امریکہ نے بھی پاکستان کو افغان امن عمل میں براہ راست شامل ہونے کی پیشکش کی۔ بہرحال ایک طویل جنگ کے بعد29فروری 2020 کو دوحہ قطر میں باقاعدہ ایک ضابطہ کے تحت تحریری معاہدہ ہو اجس میں چار نکات پر دونوں فریق رضامند ہوئے اور اس کا اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔لیکن ابھی چند دن ہی گزرے ہیں کہ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے انکار کیا۔ اب اس صورتحال کے بعدطالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر کوئی فرق پڑے گا بظاہر تو ایسا نہیں لگتا کہ اشرف غنی کی اس پورے عمل کوئی خاص اہمیت ہوسکتی ہے چونکہ اشرف غنی کی سیاسی قد اور افغان صدر کے حوالے سے حیثیت کا اندازہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے ہی لگایاجاسکتا ہے جن میں ان کی شرکت کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی گئی اور یہ مذاکرات امریکہ اور طالبان قیادت کے درمیان ہوئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مذاکرات بھی افغانستان کی بجائے قطر میں ہوئے جہاں افغان حکومت کے فریق ہونے کی حیثیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے مگر افغان صدر کے طالبان قیدیوں کی رہائی کے متعلق بیان پر ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ امن معاہدے کے لیے پاکستان نے جو کردار ادا کرنا تھا کردیا اور اب اگلا قدم اٹھانا افغانوں کا کام ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ معاہدے کے بعد سب کا خیال تھا راستہ آسان نہیں،دشواریاں آئیں گی لیکن امن کے راستے میں آنے والی دشواریوں کا حل نکالنا ہوگا، اس وقت افغان قیادت پر آزمائش ہے، دیکھتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھاکہ قیدیوں کا تبادلہ امن معاہدے میں موجود ہے، رہائی یکطرفہ نہیں ہوگی، دونوں طرف سے قیدی رہا ہوں گے، افغان قیادت کو لچک دکھانی پڑے گی کیونکہ ہٹ دھرمی سے بات آگے نہیں بڑھے گی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ صرف معاہدہ کافی نہیں، رویے بھی درست کرنے پڑتے ہیں، ماحول خراب کرنے والے ہمیشہ تھے اور رہیں گے، سیاسی قیادت کا کام ہے کہ ماحول خراب کرنے والوں کو ناکام بنائیں۔بہرحال افغان حکومت کو اپنے رویہ میں لچک دکھانا ضروری ہے کیونکہ افغانستان مزید جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا جس سے افغانستان مزیدغیر مستحکم ہو جو پورے خطے کے مستقبل کیلئے نیک شگون نہیں بلکہ اس معاہدے کی رو سے تمام فریقین کو ملکر افغانستان میں امن قائم کرتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرناہوگاتاکہ افغانستان میں مستقل امن قائم ہوسکے۔