|

وقتِ اشاعت :   March 5 – 2020

بلوچستان کے مسائل کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف نعروں، جلسے جلوس اور اپنے انتخابی مہم کیلئے سیاسی جماعتیں استعمال کرتی ہیں جبکہ حقیقی معنوں میں عوام کی محرومیوں کا احساس کسی کو بھی نہیں صرف بلوچستان کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی اس وقت جب کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے بلوچستان ہر جگہ یادآتا ہے اورپھر بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کا ایسا رونا رویا جاتا ہے کہ جیسے انہیں بلوچستان کادرد سونے نہیں دیتا۔

گو کہ ان لیڈران کا جینا مرنا بلوچستان کے عوام کے درمیان رہ کر ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کبھی بھی کسی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں بلوچستان نہیں رہا، محض حریف جماعتوں کو آڑے ہاتھ لینے کیلئے استحصال کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ آج بھی بلوچستان جوکہ ملک کا نصف حصہ ہے بنیادی سہولیات سے محروم ہے جبکہ میگامنصوبے اور خوشحالی کی باتیں عوام کو دلاسہ دینے کے لیے ہیں۔ کوئی بھی ریکارڈ اٹھاکر بتاسکتا ہے کہ بلوچستان کے کس منافع بخش منصوبہ سے صوبہ کو کتنافائدہ پہنچ رہا ہے یعنی جب صوبائی خزانہ کو کچھ نہیں مل رہا توعوام کی ترقی اورفلاح وبہود کیسے ممکن ہے۔ بلوچستان کی قومی شاہراہیں خاص کر کوئٹہ تا کراچی، چمن ودیگر علاقوں میں آئے روز حادثات رونما ہوتی ہیں۔ان خونی شاہراہوں کی وجہ سے بلوچستان کے ہزاروں لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دوبیٹھے ہیں۔

بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ شاہراہوں کی تعمیر اورا نہیں دورویہ بنانے کیلئے وفاقی حکومت اقدامات اٹھائے مگرنہ وفاق سنتا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت کے پاس وسائل ہیں، اس طرح یہ مسئلہ اپنی جگہ ابھی تک برقرار ہے اور آئے روز ٹریفک حادثات ہوتی رہتی ہیں۔ بلوچستان کے عوام زیادہ تر مسافر بسوں اورکوچز پر سفر کرتے ہیں جبکہ دیگر صوبوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر کیلئے ٹرینوں کی سہولت موجود ہے مگر یہاں پراندرون شہر ریلوے کی سہولت تو کجا آج تک پرانے بوسیدہ ٹریکس پربین الصوبے ایک دو ٹرینیں چلتی ہیں جس کی وجہ سے کوئی بڑا سانحہ پیش آسکتا ہے اسی لیے ریلوے کے پرانے نظام کی وجہ سے عوام اس پرسفر کرنے سے کتراتے ہیں۔اگر بلوچستان کے وسائل سے چلنے والے منصوبوں سے وفاق کچھ رقم بلوچستان کے لیے چھوڑ دے اور اس رقم سے سفری سہولیات فراہم کی جائیں تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا مگر کرے گا کون؟سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر ملبہ ڈال کر بلوچستان کے مسائل سے جان چھڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ریلوے نے ابھی گزشتہ روز ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کرایوں میں کمی کا اعلان کیا ہے اور اس میں بھی بلوچستان شامل نہیں۔ پاکستان ریلوے کے نوٹیفکیشن کے مطابق ملک بھر میں چلنے والی 21 مسافر ٹرینوں کے کرایوں میں کمی کی گئی ہے، مسافر ٹرینوں میں اے سی بزنس اور اے سی سلیپر کے ایک طرفہ ٹکٹ پر 10 دس فیصد رعایت کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ دو طرفہ ٹکٹ پر 25 فیصد رعایت دی جائیگی۔ کرایوں میں کمی عوام ایکسپریس، ملتان ایکسپریس، رحمان بابا ایکسپرس اور کراچی ایکسپریس پر حاصل ہوگی اوریہ سہولت بزنس ایکسپریس، شالیمار ایکسپریس، شاہ حسین ایکسپریس اور قراقرم ایکسپریس میں بھی حاصل ہوگی۔بہاؤالدین زکریا ایکسپریس، گرین لائن ایکسپریس، موسیٰ پاک ایکسپریس، ملتان ایکسپریس اور مہران ایکسپریس میں بھی یہ سولت دستیاب ہوگی۔

ریلوے کے کرایوں میں کمی سے متعلق نوٹیفیکیشن کے مطابق فیصل آباد ایکسپریس، فیصل ایکسپریس اور اسلام آباد ایکسپریس پر ایڈوانس بکنگ پر مسافروں کو رعایت ملے گی۔ پاکستان ریلوے کے جاری کردہ نوٹیفکیشن سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کی اہمیت کتنی ہے، نوٹیفکیشن میں ملک بھر کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بلوچستان غائب ہے جبکہ سب سے زیادہ ضرورت اس وقت سفری سہولیات کی بلوچستان کو ہے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا صوبہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بلوچستان کے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک سفر کیلئے بھی ٹرین کی سہولت فراہم کی جائے مگر اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی۔

صوبہ کے سینیٹرز بھی بری الذمہ نہیں ہیں جن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایوان بالا میں بلوچستان کے عوام کو درپیش سفری سہولیات کے حوالے سے آواز اٹھائیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے نہ صرف ٹرین کی سہولت پر بات کریں بلکہ خونی شاہراہوں کے حوالے سے نئے منصوبوں پر زور دیں تاکہ عوام سفر کے دوران اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو نہ بیٹھیں۔ وفاقی حکومت کو بھی بلوچستان کو خاص اہمیت دیتے ہوئے یہاں پر موجود مسائل کو حل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ بلوچستان میں بھی ترقی کی رفتار دیگر صوبوں کے برابر آسکے۔