ملک میں نظام کی بہتری سے ہی کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور اس میں مقامی انتظامیہ کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اس لئے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اس کی بنیادی وجہ عوام کو بروقت سہولیات فراہم کرنا اور بحرانات سے نمٹنا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے تو اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں کیونکہ ایک مخصوص مافیا سرگرم ہوجاتا ہے جس کا مقصد عوام کی چمڑی ادھیڑ کر رکھنا ہوتا ہے حالانکہ جب پیٹرولیم مصنوعات سستی ہوجاتی ہیں تو اشیاء خورد ونوش سمیت کرایوں میں کمی فوری نہیں کی جاتی بلکہ دونوں ہاتھوں سے غریب عوام کو لوٹا جاتا ہے جبکہ مقامی انتظامیہ خواب خرگوش میں مبتلا رہتاہے جس کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ انتظامات پر نظر رکھے اور ہر جگہ اپنی موجودگی کو یقینی بنائے اور گراں فروشوں سمیت ہر قسم کے مافیاز کے خلاف بروقت کارروائی کرے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
اسی طرح اگر دیکھاجائے ہمارے ہاں مختلف اداروں کی بنیادتو رکھی گئی ہے مگر ان کی فعالیت سوالیہ نشان ہے جس کی ایک مثال ملک بھر میں جعلی ادویات کی فروخت ہے کیونکہ ڈرگ ریگولر اتھارٹی کسی بھی جگہ دکھائی نہیں دیتی اور بلوچستان خاص کر کوئٹہ کے اہم تجارتی مرکز جناح روڈ پر سینکڑوں کی تعداد میں میڈیکل اسٹورز دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے لائسنس اور ادویارت کی جانچ پڑتال ہی نہیں کی جاتی حالانکہ یہ سب کے علم میں ہے کہ افغانستان کے ذریعے جعلی ادویات یہاں اسمگل کرکے فروخت کی جاتی ہیں اور ان ادویات کا معیار صرف یہ ہے کہ انسانی جان کیلئے خطرہ کے سواکچھ نہیں مگر مجال ہے کہ اس حوالے سے ایکشن لیاجائے۔ اسی طرح حال ہی میں کرونا وائرس کے کیسز جب سامنے آنے لگے تو کوئٹہ کے میڈیکل اسٹورز سے سرجیکل ماسک غائب ہوگئے اور انتہائی مہنگے داموں کوئٹہ سمیت ملک بھر کے میڈیکل اسٹورز میں فروخت کیے جانے لگے۔ جب تک مافیاز پر بڑے پیمانے پر ہاتھ نہیں ڈالاجائے گا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، مزید ادارے بنانے کی بجائے موجود اداروں کا نوٹس بھی لینا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ گزشتہ روز ہی وفاقی حکومت نے ملک بھر میں وبائی امراض کی فوری روک تھام کے لیے ڈاکٹرز اور ماہرین صحت پر مشتمل ڈرگ سیفٹی ریسرچ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ ایک اچھا عمل ہے مگر ساتھ ہی اس کی فعالیت کو بھی یقینی بنایاجائے۔
اس خاص یونٹ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفرمرزا کی زیر صدارت کورونا وائرس سے بچاؤ کا جائزہ اجلاس ہوا،اجلاس میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ تمام ائیرپورٹس اور زمینی راستوں پر اسکریننگ کا مؤثر نظام موجود ہے، 5 مارچ کو 22 ہزار مسافروں کی اسکریننگ ہوئی جبکہ ابھی تک 7 لاکھ 90 ہزار مسافروں کی زمینی اور ہوائی راستوں پر اسکریننگ کی گئی۔اجلاس میں ملک بھر میں وبائی امراض کی فوری روک تھام اور نظام کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور وبائی امراض کی روک تھام کے لیے ڈرگ سیفٹی ریسرچ یونٹ (ڈی ایس آر یو) قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ ڈی ایس آر یو قابل ڈاکٹروں اور ماہرین صحت پر مشتمل ہوگا جو وبائی امراض کی روک تھام کے لیے کلیدی کردار ادا کرے گا۔
وبائی امراض کی مسلسل نگرانی اور فوری کارروائی کا مربوط نظام ہونا چاہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 6 ہوگئی ہے، اورمتاثرہ تمام افراد نے ایران کا سفر کیا تھا۔اب تک کراچی میں 3، اسلام آباد میں 2 جبکہ گلگت بلتستان سے ایک کیس کی تصدیق ہوچکی ہے اور تمام متاثرہ افراد زیر علاج ہیں۔کرونا وائرس کے خوف نے جس طرح عوام کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے اس حوالے سے وفاقی حکومت باقاعدہ طور پر صوبائی حکومتوں کو خصوصی پیکج دیتے ہوئے آگاہی مہم بھی چلائے تاکہ عام لوگوں کے اندر موجود خوف کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور ساتھ ہی احتیاطی تدابیر کے ذریعے عوام کو شعور دیا جائے کہ کس طرح سے اس وائرس سے بچا جاسکتا ہے تاکہ وہ کسی پروپیگنڈہ کاشکار نہ ہوں۔نیز یہ کہ اسکولوں کی جہاں تعطیلات کا اعلان کیا گیا ہے اس پر بھی کڑی نظر رکھی جائے کیونکہ پرائیویٹ اسکولز ایک کاروباری طبقہ ہے جو والدین اور ٹیچرز کو مجبور کرکے اسکول کھولنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ کراچی اور کوئٹہ میں پرائیویٹ اسکول مالکان سرکاری اعلامیہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسکولز کھول رہے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ان کو سرکاری اعلامیہ کا پابند کیا جائے اور جو حکم عدولی کرے،ان کے لائسنس منسوخ کرکے اسکول کو ہمیشہ کیلئے سیل کیاجائے تاکہ کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب نہ ہو کیونکہ یہ انسانی جانوں کا مسئلہ ہے جس پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔