ملک کو چیلنجز اور بحرانات کا ہمیشہ سامنا رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ معاشی بحران اور درپیش چیلنجز کی وجہ بھی سابقہ پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ مسلسل غلطیوں کے بعد مزید اب ایسی گنجائش نہیں بچتی کہ انہیں دہرایا جائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں مسلسل نہ صرف روایتی پالیسیوں کو جاری رکھا گیا بلکہ بیشتر ادوار میں کابینہ میں وہی وزراء دکھائی دیتے ہیں۔ایک طرف جہاں موروثی سیاست کی بات کی جاتی ہے مگر سدابہار وزراء کی طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی کہ وہی چہرے ہرحکومتی ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں جن کا سیاسی جماعت کے حکومتی ایجنڈے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا صرف وزارت کیلئے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جاتی ہیں۔اگر اس کلچر کو بڑی سیاسی جماعتیں ختم کریں تو کسی حد تک گورننس میں بہتری آسکتی ہے اور چیلنجز وبحرانات کا صحیح معنوں میں مقابلہ کیا جاسکتا ہے چونکہ ایسی شخصیات سب کچھ اچھا کا راگ الاپتے ہوئے چاپلوسی کو پروان چڑھاتے ہیں اور جب اقتدار کسی دوسری جماعت کے پاس چلی جاتی ہے تو یہ چہرے پارٹی کی روش کا بہانہ بناتے ہوئے غائب ہوجاتے ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ مستقل مزاج اور اپنی جماعت کے ان نظریاتی ورکرز کو کا بینہ میں شامل کیاجائے جو اپنے شعبہ میں مہارت رکھتے ہوں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے پاس ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو باصلاحیت اور نظریاتی پختگی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے ایک طویل جدوجہد کی جب خود وزیراعظم عمران خان کی ایک نشست تھی مگر ایک تسلسل کے ساتھ انہوں نے سیاسی جدوجہدکی اور اس طرح ان کا قافلہ بڑھتا گیا اور آج پی ٹی آئی کی ٹیم میں ایسی شخصیات شامل ہیں جو نہ صرف باصلاحیت بلکہ انتہائی ایمانداری کے ساتھ کام کرتے ہیں جو وزیراعظم عمران خان کے دیرینہ ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بہرحال گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سوشل میڈیا ارکان سے ملاقات کی تو اس دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ صبح موبائل دیکھتاہوں توپتا چل جاتا ہے آج کس کرائسس کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ ہر وقت کرائسس کے لیے تیار رہتے ہیں، اپوزیشن کچھ نہ کرے تو کوئی وزیر ایسا بیان دے دیتا ہے کہ سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے، ایسے بھی وزیر ہیں جو دفتر سے زیادہ کوہسار مارکیٹ میں بیٹھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف جان بوجھ کر جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، سوشل میڈیا پر مثبت تنقید بالکل ہونی چاہیے لیکن حکومت پر حملہ کرنے سے پہلے خبروں کی تصدیق کرلینی چاہئے کہ آیا یہ خبر سچی یا جھوٹی ہے، اکثر ہمارے اپنے لوگ میڈیا کی فیک نیوز کے پروپیگنڈے میں آجاتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ آٹا، چینی بحران پر تحقیقاتی رپورٹ پبلک کی جائے گی، آٹا چینی بحران پر جو بھی قصور وار نکلا نہیں چھوڑوں گا، چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ مایوسی کفر ہے، اچھا وقت جلد آئے گا۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس بات کا اظہار کرنا کہ چند وزراء کی وجہ سے مشکلات پیداہوتی ہیں تو ضروری ہے کہ ان کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیاجائے کہ وہ اپنی وزارت کے ساتھ کتنے خلوص کے ساتھ کام کررہے ہیں چونکہ وزراء کی ہی کارکردگی سے محکموں میں بہتری آتی ہے۔
ہمارے قومی ادارے جو کسی دور میں قومی خزانے کو بہترین منافع فراہم کرتے تھے مگر افسوس کہ ماضی میں وزراء کی کرپشن یا عدم توجہی کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں جن کی نجکاری پر حکومتیں مجبور ہوگئی تھیں حالانکہ پاکستان میں وہ تمام وسائل موجود ہیں جن کے ذریعے نہ صرف معیشت کو بہتر کیا جاسکتا ہے بلکہ عالمی منڈی تک رسائی حاصل کرتے ہوئے اپنی مصنوعات کے ذریعے معاشی تبدیلی لائی جاسکتی ہے مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب بہترین وزراء پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جائے گی۔ امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس جانب توجہ ضرور دینگے تاکہ ملک کو بہترین سمت میں گامزن کرتے ہوئے موجودہ بحرانات سے جلد نکالاجائے۔