افغان صدر بننے کی دوڑ نے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ میں تنازع پیدا کردیاہے، ملک کا صدر بننے کی ضد میں دونوں رہنماؤں نے علیحدہ علیحدہ حلف اٹھایا۔افغان الیکشن کمیشن نے گزشتہ برس ہونے والے انتخابات میں اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا تھا، تاہم ان کے مخالف عبداللہ عبداللہ نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔اشرف غنی نے صدارتی ہاؤس میں عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ عبداللہ عبداللہ نے سپیدار محل میں عہدے کا حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب کے دوران صدارتی محل اور گرد و نواح میں سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاداورنیٹو چیف سمیت دیگر امریکی حکام نے بھی شرکت کی۔تقریب حلف برداری کے بعد اشرف غنی نے کہا کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
عبداللہ عبداللہ سے مذاکرات کی کوشش جاری ہے۔واضح رہے کہ 22 دسمبر 2019 کو افغانستان کے عام انتخابات کے ابتدائی نتائج سامنے آگئے تھے، جن کے مطابق اشرف غنی نے 50.64 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مخالف امیدوار عبداللہ عبداللہ نے 39.52 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔اشرف غنی کی دوسری بار انتخابی کامیابی کو عبداللہ عبداللہ نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے رد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ان فراڈ انتخابات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک ان کے جائز مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔افغانستان کے دارالحکومت کابل کے صدارتی محل میں نومنتخب صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں دھماکوں کی آواز سنی گئی جس کی وجہ سے نومنتخب افغان صدر نے کچھ دیر کے لیے اپنی تقریر روک دی،تاہم دو دھماکوں کی آوازکے بعد صدر اشرف غنی نے اپنا خطاب جاری رکھا اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ میں نے بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی ہے، میرا سینہ افغان عوام پر قربان ہونے کے لیے حاضر ہے البتہ ان دھماکوں سے اب تک کسی کے زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔صداتی امیدوار اور گزشتہ دور کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے خود کو ملک کا صدر قرار دیا ہے۔ کابل کے صدارتی محل ارگ میں نومنتخب صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برادری جاری تھی تو قریب ہی واقع سپیدار محل جو کہ پہلے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو کا دفتر ہے وہاں پر عبداللہ عبداللہ نے بھی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا ہے۔
بہرحال اس وقت یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے کیونکہ اس عمل کے بین الافغان مذاکرات پر براہ راست اثر ات پڑینگے جو ابھی ہونے ہیں جو کہ دوحہ میں ہونے والے طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے میں شامل ہے۔ جس طرح سے سیاسی بحران دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ چند اور گروپس بھی متحرک ہونے کی کوشش کرینگے کیونکہ چند ہی روز قبل عبداللہ عبداللہ نے ایک تقریب میں شرکت کی تھی جس پر حملہ کیا گیا اور اس کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس کی ذمہ داری ایک شدت پسند گروپ نے قبول کی تھی۔ اگر اس حساس صورتحال کے دوران عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان اختلافات موجود رہتے ہیں تو افغانستان میں سیاسی استحکام تو کجا امن پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے جس کے بارے میں دونوں رہنماؤں کو سوچنا ہوگا کہ افغانستان میں سب سے پہلے امن ضروری ہے جس کیلئے راستہ نکالنا چاہئے،اگر امریکہ بھی خاموش تماشائی بنا رہتا ہے تو یقینا آنے والے دنوں میں افغان امن عمل کے مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔