حکومت بلوچستان نے صوبے بھر میں تعلیمی ادارے 30 مارچ تک بند رکھنے کا اعلان کردیا۔کوئٹہ میں صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کسی بھی سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی ادارے کو کھولنے کی اجازت نہیں دیں گے۔انہوں نے بتایا کہ میٹرک کے امتحانات بھی 30 مارچ تک ملتوی کر دئیے گئے ہیں، تمام فیصلوں سے متعلق گورنر بلوچستان سے مشاورت کر رہے ہیں۔صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ابھی تک کورونا کے بہت کم کیسز سامنے آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 16 مارچ سے 31 مارچ تک اسکول و کالجز میں چھٹی کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کو خط لکھیں گے، اس سلسلے میں 27 مارچ کو دوبارہ اجلاس طلب کیا جائے گا۔یار محمد رند نے علماء سے اپیل کی کہ وہ مدارس بھی بند کردیں، کسی بھی اسکول نے فیصلے کی خلاف ورزی کی تو کارروائی ہوگی۔دوسری جانب گلگت بلتستان میں کورونا کا ایک اور کیس سامنے آگیا ہے جس کے بعد ملک بھر میں کیسز کی تعداد 20 ہوگئی ہے۔حکام کے مطابق 31 سالہ شخص میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے جس کا تعلق شگر کے علاقے سے ہے۔محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق گلگت بلتستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد تین ہوگئی ہے۔
ترجمان گلگت بلتستان فیض اللہ فراق کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے 130 آئسو لیشن رومز قائم کردئیے گئے ہیں۔ کرونا وائرس کو عالمی ادارہ صحت نے عالمی وباء قرار دیا ہے جو کہ خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اب تک کرونا وائرس نے 110 سے زائد ممالک کو شدید متاثر کیا ہے جبکہ چار ممالک چین، جنوبی کوریا، اٹلی اور ایران میں زیادہ کیسز اور اموات ہوچکی ہیں۔ بہرحال دنیا بھر کے ممالک اس وباء کو ایک چیلنج کے طور پر لے رہے ہیں۔ ملکوں کے مابین سیاحت کی شرح کو انتہائی کم کیا گیا ہے، سعودی عرب نے زیارت پر فی الوقت پابندی عائد کردی ہے۔
ان تمام اقدامات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی ملک اس حوالے سے کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا کیونکہ کروناو ائرس کی وجہ سے عالمی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بہرحال حکومت پاکستان کو اس وباء کو روکنے کیلئے مزید اقدامات اٹھانے ہونگے خاص کر آمدورفت کو بالکل محدود کرنا ہوگا۔ سرحدی علاقے جو ایران اور افغانستان سے منسلک ہیں وہاں پر ضلعی انتظامیہ کو پابندبنایاجائے کہ ہر قسم کی غیر روایتی آمد ورفت سمیت معمول کے مطابق جو تجارت یا نقل وحرکت ہوتی ہے اس کو محدود کیا جائے اور اسکریننگ کے عمل کو ممکن بنایاجائے۔
دوسری جانب تفتان سے آنے والے زائرین کو کوئٹہ کے علاقہ میاں غنڈی منتقل کرنے کے خلاف لوگوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے کیونکہ رہائشی علاقوں میں کسی طور بھی ایمرجنسی وارڈ قائم نہیں کئے جاتے، بیشک ان افراد میں وائرس موجود نہ ہو مگر شبہ کی بنیاد پر بھی انہیں شہری علاقوں میں لانا کسی طور بھی صحیح عمل نہیں ہے بلکہ ان کیلئے اسپیشل ٹرانسپورٹ کا انتظام کیاجائے تاکہ فوری طور پر انہیں اپنے شہروں کو بھیجا جائے اور ساتھ ہی تفتان یا دالبندین سے ہوائی جہاز کے ذریعے ان کی منتقلی کو یقینی بنایاجائے تاکہ عوام میں موجود خوف کا خاتمہ ہوسکے۔ دوسری جانب پنجگور سے منسلک سرحدوں کے حوالے سے بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ چند روپے کے عوض ایران سے لوگوں کو لایاجارہا ہے۔
یقینا اس میں مقامی ٹرانسپورٹرز ہی ملوث ہونگے جن کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور اس کی ذمہ داری ضلعی آفیسران کو دی جائے کیونکہ یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو بلوچستان سمیت پورے ملک میں کرونا وائرس پھیل جائے گا۔یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے کہ غیر قانونی طور پر آمد ورفت میں جو بھی ملوث ہوگا اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی یہ امر قابل اطمینان ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان تمام صورتحال کی ذاتی طورپر نگرانی کررہے ہیں۔
جبکہ کوئٹہ میں موجود 85 افراد نے بھی سہولیات نہ ہونے پر احتجاج کیا ہے لہٰذا ممکنہ اقدامات اٹھاتے ہوئے کسی طرح سے بھی اس وائرس کے حوالے سے غفلت نہ برتی جائے کیونکہ بصورت دیگریہ نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔