|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2020

وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے خلاف ٹا ئیگرز فورس بنانے کا اعلان کیاہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کورونا کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں نوجوانوں کی ضرورت ہے، نوجوانوں کی رجسٹریشن 31مارچ سے شروع کی جائیگی اور ان کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کھانے پینے کی اشیاء بنانے والی فیکٹریاں بھی کام کرتی رہیں گی، ملک بھر میں اشیائے خوردونوش کی فراہمی نہیں روکی جائیگی۔انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اپنی معیشت اور عوام کے لیے 2 ہزار ارب ڈالر کا پیکج دیا ہے جبکہ ہماری ٹیکس کولیکشن 45ارب ڈالر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اس کے اثرات سامنے آتے ہیں، مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں انتہائی غریب طبقے کی فکر تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ سامان کی نقل وحمل کے لیے گڈز ٹرانسپورٹ کی مکمل اجازت ہوگی اور اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ دوسری طرف سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن میں مزید 3 گھنٹے کی سختی کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد شام 5 بجے سے صبح 8 بجے تک لاک ڈاؤن میں سختی ہوگی۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شام 5 بجے سے صبح 8 بجے تک تمام کاروبار بند رکھنے کی ہدایت کی ہے۔سندھ حکومت کے فیصلے کے بعد آئی جی سندھ مشتاق مہر نے پولیس کو احکامات جاری کردئیے ہیں۔انسپکٹر جنرل سندھ پولیس مشتاق مہر کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کیلئے لاک ڈاؤن میں مزید 3 گھنٹے سختی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے دوران شام 5 سے صبح 8 بجے تک تمام کاروبار بند رہے گا۔سندھ میں میڈیکل اسٹورز کے علاوہ تمام دکانیں رات 8 بجے بند ہوں گی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل سندھ حکومت نے صبح 8 بجے سے رات 8 بجے تک کاروبار کھولنے کی اجازت دی تھی تاہم رات 8 بجے کے بعد صرف ان میڈیکل اسٹورز کو کھولنے کی اجازت تھی جو اسپتالوں کے قریب واقع ہیں۔سندھ حکومت بارہا عوام سے اپیل کرچکی ہے کہ لوگ از خود گھروں میں رہیں ورنہ کرفیو بھی نافذ کیا جاسکتا ہے۔بلوچستان میں وزیراعلیٰ جام کمال خان نے عوامی مشکلات کے پیش نظر اور خاص کر کوئٹہ سے صوبے کے دیگر حصوں میں اشیاء کی ترسیل کے حوالے سے گڈزٹرانسپورٹ چلنے کی اجازت دی ہے۔

بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اس وقت کورونا وائرس کے حوالے سے تمام صورتحال کو نہ صرف خود ذاتی طور پردیکھ رہے ہیں بلکہ مسلسل مانیٹرنگ بھی کی جارہی ہے۔سندھ کی نسبت بلوچستان میں فی الحال خاص سختی نہیں کی جارہی لیکن جن علاقوں میں کیسز کے خدشات موجود ہیں ان علاقوں کو سیل کیے جانے کافیصلہ کیاگیا ہے جبکہ عوام کو بھی غیر ضروری طور پر گھروں سے نکلنے پر سخت پابندی عائد ہے، اسی طرح تجارتی مراکز بھی بند ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 9 ہوگئی ہے جبکہ مزید کیسز سامنے آنے کے بعد تعداد 1286 تک جاپہنچی ہے۔

وزیراعظم عمران خان سمیت صوبائی حکومتوں کی جانب سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ عوام کو اس مہلک مرض سے بچایا جائے اس لئے وزیراعلیٰ سندھ نے عوامی رویوں کے پیش نظر مزید سختی کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان جس جانب بارہا اشارہ دے رہے ہیں یقینا یہ بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کہ کرفیواورمکمل لاک ڈاؤن جیسی صورتحال سے دیہاڑی دار افراد کیلئے مشکلات پیدا ہونگی جس کے متحمل ہمارے لوگ نہیں ہوسکتے کیونکہ امریکہ اور دیگرترقی یافتہ ممالک کابجٹ اور معیشت کے لحاظ سمیت جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ عوام کو درپیش مالی مشکلات سے بچاسکتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں اس طرح کا جدید نظام بھی موجود نہیں ہے۔ لہٰذا عوام تعاون کرتے ہوئے وقتی طور پر لاگوسختی کے حوالے سے حکومت کے ساتھ تعاون کریں تاکہ آنے والے دنوں میں مزیدمشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔