کتابوں سے محبت کرنے والی ایک شخصیت کے بارے میں آج خیال تھا کچھ ذکر ہوجائے لیکن اس سے پہلے ہم چاہتے ہیں ان ڈاکٹرز کو سلام پیش کریں جو تمام ممکنہ خطرات کے باوجود ایک انسانی جذبہ اور لگن کے ساتھ پوری دنیا میں “کرونا وائرس” جیسی بلا یا وبا سے نبرد آزما ہیں اور ان میں سے کئی اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرچکے ہیں (ان میں ایک پاکستانی نوجوان ڈاکٹر اسامہ بھی شامل ہے)۔
علاوہ ازیں چند طبی سائنسدان بھی ہیں جو دن رات اس خطرناک بلا کا مقابلہ کرنے اور اس پر مکمل قابو پانے کے طریقے دریافت کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو واقعی سلوٹ کے قابل ہیں اور یہی وہ انسانی چہرے ہیں جن کو اصل ہیرو کا درجہ ملنا چائیے جیسا کہ چین کی عوام۔ حکومت اور فوج نے ان کی کامیابی پر انہیں یہ مقام دیا۔
ہماری نظر میں وہ لوگ بھی تحسین کے قابل ہیں جو علم کی جستجو میں رہتے ہیں اور کتابوں سے پیار کرتے ہیں۔ امان قاضی ایک سیدھے سادے سے درمیانہ قد کے ایک بہت ہی پیارے انسان ہیں۔ عموماً اتوار کو ریگل فٹ پاتھی کتاب بازار میں اور عام دنوں میں لیاری ٹیکسٹ بک لائبریری (ملا فاضل ہال) میں کتابیں ڈھونڈتے اور مطالعہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ زاہد بارکزئی کے قریبی دوستوں میں شامل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کتابیں قاضی صاحب کا اوڑنا بچھونا بھی ہیں۔
قاضی امان سے جب بھی ہماری بات ہوئی ہے موضوع کتاب ہی رہا ہے اور ہر بار وہ ایک ایسی کتاب کا ذکر چھیڑتے ہیں جو انہوں نے حال ہی میں پڑھی ہوئی ہو۔ “کرونا وائرس” کے ابتدائی دنوں میں ملے تو انگریزی زبان میں چھپی ایک کتاب “The Plague” کا نام لے کر اس کی اسٹوری بتائی۔ یہ الجیریا میں پیدا ہونے والے فرانس کے مشہور اتھیسٹ رائٹر البرٹ کاموس کی کتاب ہے جو 1947 میں فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی تھی جس کا انگریزی میں ترجمہ اسٹیوارٹ گلبرٹ نے کیا جو 1948 میں چھپا۔
البرٹ کاموس کو 1957 میں ادب کے شعبہ میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ انہوں نے کئی معرکتہ الآرا ناول تخلیق کئے ہیں لیکن “دی پلیگ” میں انہوں نے انسانی کرداروں کے ذریعے ہنگامی صورتحال میں انسانی جذبات کے تمام پہلوؤں کو آشکار کرکے اسے کمال طریقے سے حقیقی زندگی سے نزدیک تر کردیا ہے۔ ان کرداروں میں معاشرہ کے تقریباً تمام اچھے اور ب?رے انسان شامل ہیں۔ ان میں مسیحا ایک ڈاکٹر بھی ہے جو آخر تک انسانی جان بچانے کی تگ و دو میں رہتا ہے جبکہ اس کی اپنی بیوی کسی اور شہر میں زندگی اور موت کے کشمکش میں مبتلا رہتی ہے۔
موت سے مقابلہ کرنے کی اس کہانی میں درد ہے خوف ہے۔ دھوکہ ہے۔ فریب ہے۔ لیکن نیک جذبہ اور قربانی بھی ہے۔ امید و آس بھی ہے۔ ہمت اور جدوجہد بھی ہے اور یہی انسانی زیست کی کہانی ہے۔ کاموس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنی بار پلیگ جیسی وباؤں نے انسانی زندگی کو تہس نہس کیا ہے تاریخ میں اتنی ہی تباہی جنگوں نے پھیلائی ہے۔ اس کے باوجود پلیگ اور جنگ کے اندھیرے اب بھی ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں!
ہمارا معاشرہ بھی ان دنوں پلیگ جیسی مصیبت سے دوچار ہے۔ انسانی احساسات اور جذبات یہاں بھی مختلف انداز اور طریقوں سے عیاں ہیں۔ تمام مصیبتوں کے باوجود عزم و ہمت کا جذبہ غالب ہے۔ البتہ ہمارے کچھ نادان دوست “کرونا وائرس” کی ممکنہ تباہی سے ناآشنا معلوم ہوتے ہیں۔ حکومت سندھ کے زبردست انتظامات اور احکامات کے باوجود غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر آکر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔
البرٹ کاموس کے ناول “پلیگ” میں بھی ایسے کردار ہیں جو “راہ راست” پر اس وقت آتے ہیں جب ایک ہی دن میں 30 اموات ہوجاتی ہیں۔ “کرونا وائرس” سے بڑے پیمانے پر اموات کی ابتدا چین سے ہوئی تھی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خطرناک وبا کی پہلی تشخیص وہیں کے ایک آنکھوں کے ڈاکٹر نے دسمبر کو ہی کردی تھی لیکن چینی حکام نے اس جانب توجہ نہ دی بلکہ جنوری میں اس ڈاکٹر کو افواہ پھیلانے کے الزام میں پولس اسٹیشن بلا کر اس سے بازپرس کی۔ بعد میں وہ بیچارہ ڈاکٹر فروری میں کرونا کی وجہ سے موت کا شکار ہوا۔ البتہ حال ہی میں چینی حکومت نے ڈاکٹر کی فیملی سے معافی مانگ لی۔
یورپ اٹلی میں اموات کی تعداد اب ہزاروں میں پہنچ گئی ہے۔ یہاں کے “باشعور” شہریوں نے بھی شروع میں تحفظ کے لئے سرکاری احکامات کو نظرانداز کردیا تھا۔ اوپر دی ہوئی “پچھتاؤ” کی مثالوں کو ذہن میں رکھ کر ان تمام لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں سے ہماری اپیل ہے کہ وہ امان قاضی کی بتائی ہوئی البرٹ کاموس کی کہانی کے وہ کردار نہ بنیں جو بہت بڑا سانحہ وقوع پذیر ہونے کے بعد “راہ راست” پر آتے ہیں۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے گھر اور گھر والوں کو عزت دیں اور لوٹ آئیں۔۔۔۔اور زندگی سے پیار کریں۔ زندگی کے ایک ایک لمحہ کو اپنی فیملی کے ساتھ انجوائے کریں۔ ایک بات یاد رکھیں زندگی صرف ایک بار ہی ملتی ہے۔ گھر والوں کی اور آپ کی زندگی کا تحفظ آپ ہی کے ہاتھوں سے ممکن ہے۔
جاتے جاتے ہم آپ کی خدمت میں اپنے ایک نوجوان دوست عمران فاکر (جو اردو ادب میں پی ایچ ڈی کا ارادہ رکھتے ہیں) کی ایک نظم کا کچھ حصہ پیش کرتے ہیں:
بند کمرے میں گھٹن ہے
اندھیرا ہے۔تاریکی ہے
کئی مشکلیں ہیں
جان لیوا الجھنیں ہیں
بھیانک سے سوالات ہیں
غیریقینی جوابات بھی
مگر اس بے کیفی میں
زیست کی بے رنگی میں
تہذیب کی بخشی ہوئی
چند بے مثال کتابیں ہیں
اور بالآخر اک دن
دروازہ کھل جاتا ہے
تنگ و سیاہ کمرے میں
روشنی جھلکتی ہے۔