|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2020

کرونا کی صورت میں تمام دنیامیں بسنے والے انسانوں کو ایک قہر کا سامنا ہے۔پوری دنیا اب تک تقریباََ 6 لاکھ افراد کرونا وائرس سے متاثرہوئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد 27ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔دنیا کے 199ممالک اور علاقے کرونا کے شکنجے میں ہیں اور تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکہ اور چین جیسی طاقتور ریاستیں کرونا کے اثرات سے بری طرح متاثر ہیں۔

دنیا میں سپر پاور کہلانے والا ملک امریکہ اس مہلک بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کرونا سے متاثر افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دنیا کو کسی ایسے المیہ کا سامنا ہوا تو تما م ممالک نے انسانی ہمدردی کے تحت بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے تعاون کیا کیونکہ تمام مذاہب انسانی ہمدردی کا درس دیتے ہیں۔

ویسے تو اس وقت کرونا کی وجہ سے دنیا کے تمام ترقی یافتہ و غیر ترقی یافتہ ممالک کو معاشی بد حالی کا سامنا ہے لیکن خصوصاََ ایسے ممالک جو کہ مسلسل غربت اور پابندیوں کی وجہ سے معاشی طور پر غیر مستحکم ہیں، اس المیے سے بے حد متاثر ہو رہے ہیں۔خاص طور پر ایران جو کہ مسلسل 40 سال سے پابندیوں کا شکار ہے، اس المیہ کے بعد عالمی توجہ کا منتظر ہے۔ ایران پر عالمی پابندیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

1979 ء میں امریکہ نے ایگزیکٹو آرڈر 12170کے تحت پہلی بار ایران پر تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کیں۔ جن کی وجہ سے ایران کے 12بلین ڈالرز کے اثاثے بھی منجمد ہوئے۔ اور دو سال بعد 1981ء میں یہ پابندیاں ہٹا لی گئیں۔ دوسری بار دوبار ہ امریکہ نے 1981ء میں ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں جو کہ 1987ء تک جاری رہیں بلکہ ان پابندیوں کو دوبارہ 1995ء تک بڑھا دیا گیا۔

2006ء میں امریکہ نے ایران پر UNSC RESOLUTION 1737 کے تحت ایک بار پھر پابندیاں عائد کر دیں۔ ان پابندیوں کی وجہ ایران پر یورینیم کی پیدا وار کا الزام تھا۔ اس کے تحت آئل، گیس، پیٹرو کیمیکلز اور تیل کی بر آمدات پر پابندی عائد کی گئی۔8مئی2018ء کو امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل سے دستبرداری کا عندیہ دیا، چنانچہ ایران پر چوتھی بڑی پابندیوں کی تیاریاں ہونے لگیں اور نومبر 2018ء میں باقاعدہ پابندیاں عائد کر دی گئیں۔11 جنوری2020ء کو امریکہ نے ایران کے 8اعلیٰ عہدے داروں پر پابندیوں کا اعلان کیا۔ 21فروری کو ایران کو FATF بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا۔

اب جبکہ تمام دنیا کو کرونا جیسے عظیم المیے کا سامنا ہے، اس کے باوجود امریکہ دوبارہ 26 مارچ کو ایران پر نئی پابندیاں عائد کر نے کا اعلان کر چکاہے۔جس پر ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں ایک ظالمانہ اقدام ہیں۔ یہ پابندیاں ایسے حالات میں لگائی گئیں ہیں کہ جب ایران سمیت پوری دنیا کرونا جیسی خوفناک مصیبت کے خلاف بر سرِ پیکار ہے۔اور بذاتِ خود امریکہ بھی اس المیے کا سب سے بڑا شکار ہے۔

گزشتہ کئی ہفتوں سے ایران اور دنیا بھر میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد ترکی، رو س، پاکستان، اور چین نے ایران پر پابندیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور امریکہ سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران سے پابندیاں ہٹالے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب عمران خان، پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری اور وزیرِ ریلوے شیخ رشیدنے بھی امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران پر سے پابندیاں اٹھائے۔وزیرِ اعظم عمران خان نے نہ صرف پابندیا ں اٹھانے کا مطالبہ کیا بلکہ عالمی برادری سے اپیل کی کہ پاکستان سمیت تمام غریب ممالک کے قرضے معاف کر دئیے جائیں۔

روس نے 23مارچ کو انسانی ہمدردی کے تحت 9 فوجی جہازوں کے ذریعے اٹلی کو امداد پہنچائی جس میں 100 ماہرین، طبی وسائل اور امدادی سازوسامان شامل ہے۔ اسی طرح 13مارچ کو چین کی طرف سے امدادی کھیپ تہران پہنچی جس میں ماہرین، ادویا ت اور دیگر ساز و سامان شامل ہے۔ عالمی برادری خصوصاََ امریکہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام پابندیوں والے ممالک خصوصاََ ایران سے پابندیاں اٹھائے جس کا مطالبہ ایک خط کے ذریعے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے بھی کیا جا چکا ہے۔

یہ خط 8ممالک کی طرف سے لکھا گیا جن میں روس، ایران، چین، کیوبا، شمالی کوریا، عراق اور وینز ویلا شامل ہیں۔ جہاں امریکہ سے پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ دنیا کے کئی ممالک کے رہنماؤں نے کیا ہے وہیں امریکہ کے سینیٹراور ممکنہ صدارتی امید وار برنی سینڈر نے بھی امریکی پابندیوں کوایران میں انسانی المیے کے رونما ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔امریکی سینیٹر برنی سینڈرنے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران سے پابندیاں اٹھائے۔