|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2020

جس دن سے لاک ڈاؤن کی بازگشت سنائی دے رہی تھی تب سے عوامی، سیاسی اور دیگر حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث رہا ہے لوگ اجتماعی اور انفرادی طور پر حفاظتی تدابیر، معاشی پہلو اور سماجی روابط پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہے ہیں ان تمام تجزیوں اور چی میگوئیوں کے باوجود حتمی فیصلہ حکومت کا ہوتا ہم بھی گاہے بگاہے کسی دوست سے نوک جھونک کر ہی لیتے میرا خیال تھا کہ لاک ڈاؤن کے بعد ویران سڑکوں اور گلی محلوں پر بھوک راج کرے گی کیونکہ میرا یقین ہے۔

کہ ”بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی“عوام کو اس بین الاقوامی سکوت کے دوران سیرشکم کرنے کے حکومتی دعوے اپنی جگہ مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان، پاکستان ہے امریکہ، برطانیہ اور چین نہیں ہم سبھی جانتے ہیں کہ عام حالات میں عام انسان کو دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے کتنی نفس کشی کرنی پڑتی ہے اور اگر اس سے کسی بھی وجہ سے یہ وسیلہ چھین لیا جائے تو وہ کیسے کسی خیر یا خیرات کی امید رکھ سکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ سچ بات کہنے کی جسارت ہر کسی کے بس میں نہیں اس لیے بد قسمتی سے ہمیں سچ سننے کے لیے دیواروں کے ساتھ کان لگانے پڑتے ہیں!ایسا ہی دیوار کے اْس پار کا سچ یہ بھی ہے۔

کہ حکومتی حلقے عوام کو معاشی طور پر آسودہ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں!اب اس ناکامی کی وجہ عدم دلچسپی ہے کہ معذوری؟ نمیدونم۔اب ”لاک ڈاؤن“کی صورتحال کا جائزہ لینے کی بات کریں تو مختصر یہ کہ میں نے لاک ڈاؤن پر واوین یا الٹے کومے لگا دئیے ہیں۔ اور اگر ہم تفصیل میں جائیں تب بھی صورتحال دلچسپیوں سے بھر پور ہے۔لاک ڈاؤن سے عوام کی بیزاری اور سرکشی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عوام کرونا کی وباء سے بلکل بے نیاز وغافل ہیں!کہیں کچھ سناٹے اور ویرانے جو ہمیں نظر آتے ہیں تو وہ بھی ریاستی ڈنڈوں کا خوف ہے۔

ناکہ کرونا کا!عوام کی بے باکی اور کرونا کے خوف سے بے نیازی بھی توجہ طلب ہے۔کرونا وائرس ایک وباء ہے جس کا مکمل طورپر تعلق سائنس سے ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جس عوام کو کرونا سے ڈرایا جارہا ہے یا اس سے لڑنے کی ترغیب دی جارہی ہے اسے کس قدر سائنسی تعلیم دی گئی ہے؟ سائنس پر ان کا یقین کتنا گہرا ہے؟ان کے اسکولوں اور مدرسوں کے نصاب میں سائنس کا کتنا حصہ شامل ہے؟ سو اب یہ طبقہ اپنی کم علمی کے باعث زندگی اور موت کے دورا ہے پر کھڑا جینے کے وسائل کی تلاش میں موت کی سرحدوں سے گزرنے کو بھی تیار ہے!اور دوسری طرف وہ طبقہ ہے۔

کہ جس کے بوڑھوں سے لے کر بچوں تک کو اس وباء کے حوالے سے آگہی حاصل ہے اور معاشی طور پر بھی انتہائی مستحکم ہے اس لیے وہ نہ صرف تمام تر احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہے بلکہ اپنی بقاء کیلئے لاک ڈاؤن جیسے سخت فیصلوں کو بھی بخوشی قبول کر رہا ہے۔کرونا کو کسی دن اس زمین کو سوگوار کر کے جانا تو ہے مگر اے کاش کرونا مقتدر حلقوں کی صحت پر نہیں بلکہ دماغوں پر کچھ مثبت اثرات چھوڑ کر جائے۔غفلت، عدم آگہی، بیزاری یا بھوک، کسی بھی صورت کرونا کی موجودگی تک عوام کی صحت کے حوالے سے تشویش رہے گی۔ مظفر وارثی کے حسب حال شعر کے ساتھ الوداع۔

سوچتا ہوں کہ اب انجامِ سفر کیا ہوگا
لوگ بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے