ماہ دسمبر 2019کے اختتام پر کورونا وائرس کے بارے بین الاقوامی میڈیا پر خبریں گردش کرنا شروع ہوئیں جسکی بازگشت ہمارے میڈیا تک پہنچی تو ان خبروں پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی اگر کہیں اس وائرس کے خطرناک حد تک پھیلاؤ اور تباہ کاریوں کے بارے مقامی افراد سے گفتگو کی تو اکثریت نے اس بارے کہا کہ یہ بیماری مسلمانوں میں نہیں آسکتی کیونکہ ہم کونسا حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں،ان کا کہنا ہوتا تھا کہ جہاں سے اس وائرس سے پھیلنے والی بیماری کی خبریں آرہی ہیں وہ تو حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں۔
قارئین کرام، آپ جانتے ہیں کہ یہاں گفتگو کرنے والوں کا واضح اشارہ ہمسایہ ملک چین کی طرف ہوتا تھا حرام جانور کھانے کا کہنے والے رشوت /چوربازاری سے حرام کمانے اور روزمرہ کی اشیاء خوردونوش ناقص /ملاوٹ شدہ مہنگے داموں فروخت کرنے خاص طور پر اپنے مسلمان بھائیوں کو مذہبی تہواروں پر ناجائز منافع کمانے کے بارے خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 12 ارب روپے روزانہ کرپشن ہورہی ہے گویا4380 ارب روپے سالانہ اگرچہ یہ اعداد وشمار چند سال پیشتر کے ہیں جو کہ اب مزید بڑھ چکی ہو گی۔عام طور پر ہمارے معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ مذہبی تہواروں، رمضان المبارک پر ذخیرہ اندوزتاجرطبقہ کی جانب سے ناجائز منافع کمانا اب حرام تصور نہیں کیا جاتا، اکثر یت ایسے افراد غریبوں سے ناجائز منافع کمانے کے بعد خیراتی اداروں کو بڑی بڑی تقریبات منعقد کر کے عطیات کے چیک تقسیم کر رہے ہوتے ہیں اورہر سال عمرہ اور حج بھی ادا کر آتے ہیں۔ قدرتی آفات زلزلہ، آندھی طوفان،وبائی مرض پھوٹ پڑنے پراشیاء خوردونوش کو مہنگے داموں فروخت کرنا اور ذخیرہ اندوزی کر کے عام لوگوں کی پہنچ سے دور کر دینے کو برائی بھی نہیں سمجھتے۔2005کے زلزلہ میں متاثرین اور مستحقین کے لئے آیا سامان بعض علاقوں میں فروخت بھی ہوتا رہابلکہ سالہا سال کے بعد بھی بعض اداروں کے سٹوروں میں موجود رہا۔
کچھ ایسی صورتحال اب دیکھنے کو ملی جب کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ایمرجنسی لگائی گئی توماسک، صابن،ہینڈ سینی ٹائزرمہنگے ہی نہیں بلکہ دوکانوں سے غائب کر دئیے گئے تاکہ یہ اشیاء مرضی کی قیمتوں پر فروخت کی جاسکیں۔ اشیاء خوردو نوش بھی مہنگی کی جا چکی ہیں قارئین کرام! کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی /لاک ڈاؤن کے دوران بھی یہ ہی کچھ دیکھنے سننے کو مل رہا ہے،لاک ڈاؤن کو مذاق سمجھتے ہوئے اکثریت بازاروں،کھیل کے میدانوں، پبلک مقامات پر کھلم کھلا ایمرجنسی /لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے پائے جارہے ہیں اگر کہیں انتظامیہ تھوڑا سخت اقدام اٹھاتی ہے وہاں تعلق داریاں اور معززین شہر میدان میں آکر قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے ضامن بن جاتے ہیں۔ دفعہ 144 ڈبل سواری کی پابندی گزشتہ ایک ہفتہ سے پنجاب بھر میں لگائی گئی لیکن افسوس کہ اسکی خلاف ورزی عام نظر آرہی ہے، ماہ جنوری 2020کے دوسرے ہفتے میں محکمہ صحت کی جانب سے ڈینگی وائرس کی روک تھام کے حوالے سے راقم الحروف کوایک میٹنگ میں شرکت کا موقع ملا جہاں پہلی بار انتظامیہ کی جانب سے ڈینگی مچھر کی روک تھام کے لئے کیے گئے قدامات کے بعدکورونا وائرس کے حوالہ سے میڈیکل آفیسرنے ڈپٹی کمشنر اوراجلاس کو بریفنگ دی۔
قارئین کرام! آج(30مارچ) پاکستان میں جزوی لاک ڈاؤن کاآٹھواں روز ہے کرونا وائرس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی بھی بڑے دھرلے سے جاری ہے تادم تحریرپاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد1625 ہو گئی ہے جبکہ 593 مصدقہ متاثرین کے ساتھ پنجاب ملک میں سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ بن گیا ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 18 ہے تاہم 28 افراد صحت یاب بھی ہوئے ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 54 نئے مریض اور 4کی موت ہوئی ہے ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ دارالحکومت اسلام آباد، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن ہے،حکومت کے تمام تر اقدامات کے باوجود اکثریت لاک ڈاؤن کے دوران سیر سپاٹے اور کھیل کود میں مصروف ہیں جبکہ ملک بھر میں فوج بھی تعینات ہے،چار مرتبہ برٹش اوپن سکواش چیمپیئن جیتنے والے سکواش کے پاکستانی کھلاڑی اعظم خان بھی برطانیہ میں کورونا کا شکار ہو کر وفات پا چکے ہیں۔
جبکہ دنیا بھر میں عالمی وباء کورونا وائرس سے یورپ میں اموات کی تعداد 20 ہزار سے بڑھ چکی ہے،بین الاقوامی خبر ایجنسی کے مطابق اٹلی اور اسپین میں ایک دن میں 800 سے زائد اموات رپورٹ ہوئی ہیں، کورونا وائرس کے باعث اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے، کورونا وائرس کے کیسوں کی تعداد 7 لاکھ 31 ہزار سے زائد ہوگئی ہے، کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی تعداد 34 ہزار64 ہوگئی ہیں جبکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر ایک لاکھ 57 ہزار سے زائد افراد صحت یاب ہوئے ہیں۔ایک بین الااقوامی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جان ہاپکنز جو کہ معروف یونیورسٹی ہے کے پروفیسر نے جاری کردہ الرٹ میں کہا ہے کہ کرونا وائرس کوئی جاندار چیز نہیں بلکہ ایک لحمیاتی سالمہ یا پروٹین مالیکول یعنی ڈی این اے ہے، جس پر چربی یا لیپڈ کی حفاظتی تہہ چڑھی ہوئی ہے۔
جو انسانی آنکھوں، منہ یا ناک کی رطوبت یا میوکس کے خلیوں میں مل جانے سے اپنی تولیدی یا افزائش نسل کی خصوصیت حاصل کرکے جارحانہ تیزی سے بڑھنے والا خلیہ بن جاتا ہے۔کورونا وائرس کو ختم کرنے کے حوالہ سے انھوں نے چند مشورے دئیے ہیں یہ وائرس ہوتا تو بہت نحیف(کمزور) ہے۔ تاہم، چربی کی بنی ہوئی اس کی باریک حفاظتی تہہ پھاڑ دینے سے ہی اسے ختم ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لیے صابن یا ڈٹرجنٹ کا جھاگ سب سے زیادہ موزوں ہے جسے بیس یا اس سے زائد سیکنڈ تک اس پر رگڑتے رہنے سے چربی کی تہہ کٹ جاتی ہے اور لحمیاتی سالمہ ریزہ ریزہ ہو کر ازخود ختم ہو جاتا ہے۔گرمائش چربی کو جلدی پگھلاتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ پچیس ڈگری سے زائد درجہ حرارت (نیم گرم سے تھوڑا زیادہ) تک گرم کئے ہوئے پانی سے اپنے ہاتھ، کپڑے اور دیگر اشیا ء صابن یا ڈٹرجنٹ کے جھاگ سے دھوئیں۔ گرم پانی جھاگ بھی زیادہ بناتا ہے اس لیے اس کا استعمال زیادہ سود مند ہے۔
الکحل یا ایسا آمیزہ(مکسچر) جس میں 65 فیصد الکحل ہو وہ بھی اس کی حفاظتی تہہ کو پگھلادیتا ہے۔ایک حصہ بلیچ اور پانچ حصے پانی ملا کر ایسی تمام جگہوں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل، ریموٹ، سیل فون، ماؤس، لیپ ٹاپ کی اوپری سطح، میز کی اوپری سطح یا ایسی تمام غیر جاندار جگہیں جہاں وائرس کی موجودگی کا امکان ہو اورجنہیں لوگ معمول کی زندگی میں چھوتے ہیں ان پر اچھی طرح اسپرے کرنے سے بھی اس کی حفاظتی جھلی ٹوٹ جاتی ہے۔جراثیم کش دوائی اسے ختم کرنے میں کارگر نہیں ہوتی، کیونکہ وائرس، جراثیم کے برعکس جاندار نہیں ہوتا، جبکہ جراثیم مارنے کے لیے اینٹی بائیوٹک کام کرتی ہے۔استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ کپڑوں کو لہرائیں یا جھٹکیں مت کیونکہ یہ کسی بھی مسام دار سطح (آپ کی جلد) کے علاوہ کپڑوں پر بے حس و حرکت تین گھنٹے تک چپکا رہ سکتا ہے اس کے بعد کپڑوں اور آپ کی جلد سے ریزہ ریزہ ہو کر ختم ہوتا ہے۔
جبکہ تانبے پر چار گھنٹے، کارڈ بورڈ پر چوبیس گھنٹے، دھات پر بیالیس گھنٹے اور پلاسٹک پر بہتر گھنٹے تک چپکا رہ سکتا ہے۔یہ وائرس قدرتی یا ائیرکنڈیشنر کی ٹھنڈک میں بہت مستحکم ہوجاتا ہے اسی طرح اندھیرے اور نمی (موائسچر) میں بھی دیر تک رہتا ہے، اس لیے خشک، گرم اور روشن ماحول اس کے خاتمے میں مدد دیتا ہے۔بالائے بنفشی شعاعیں (الٹرا وائلٹ ریز۔ یو وی ریز یعنی سخت دھوپ) اس پر براہ راست کچھ دیر پڑنے سے بھی یہ ریزہ ریزہ ہو کر ازخود ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے چہرے پر لگانے والے ماسک کو بھی اچھی طرح ڈٹرجنٹ سے دھو کر اسے دھوپ میں سکھانے کے بعد دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، بالائے بنفشی شعاعوں کا بہت دیر تک آپ کی جلد پر پڑنے سے اس پر جھرئیاں اور آپکو جلدی سرطان ہو سکتا ہے۔ان کایہ بھی کہنا ہے کہ منہ، ناک، آنکھ، تالو، چابیوں، نوٹوں، سکوں، دروازوں کے ہینڈلوں، بجلی کے بٹنوں، ریموٹ کنٹرول، موبائل فون، گھڑی، کمپیوٹر، ڈیسک، ٹی وی وغیرہ کو چھونے سے پہلے اور بعد میں جبکہ واش روم سے آنے کے بعد اچھی طرح ہاتھ دھویں،صحت مند جلد سے یہ وائرس انسانی جسم میں داخل نہیں ہو سکتا۔جان ہاپکنز یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر اسٹیفن بارال کو بوسٹن ہیرالڈ نے نقل کیا ہے کہ انھیں توقع ہے کہ گرم موسم میں اضافے کے ساتھ ہی اس بیماری میں قدرتی کمی واقع ہوگی۔