کبھی کبھی جب مجھے تنہائی ستاتی ہے، تو میں خیالات کی دنیا میں گم ہوجاتا ہوں۔اور کئی خیالات میرے ذہن میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھار خیال آتا ہے کہ سائنس کی بے شمار ایجادات کی وجہ سے انسان خلا تک رسائی کے بعد اور دوسرے کئی سیاروں تک پہنچ چکا ہے۔
آثارقدیمہ تک رسائی حاصل کرکے ہزاروں سال پہلے کی دنیا تک رسائی،جانوروں کے قدیم باقیات اور کھنڈرات میں چھپے خزانوں کے معلومات تک رسائی یہ وہ سائنسی ایجادات ہیں،جنہیں دیکھ اور سن کر عام انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دنیا سے ہٹ کر جب میں اپنے پسماندہ معاشرے کی طرف دیکھتا ہوں،تو مجھ پر اداسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
یہ سوچتے سوچتے کبھی نیند کی آغوش تو کبھی انجانے خیالات کی دنیا میں سوچ و فکر میں ڈوب جاتا ہوں۔اور پھر اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں،کہ ہم اس سائنسی دنیا میں دوسروں سے اتنے پیچھے کیوں؟یہ سوچتے ہوئے دو قسم کے خیالات میرے ذہن میں گونجے لگتے ہیں کہ انکے ترقی کا راز صرف تعلیم پر منحصر ہے، اور ہم تعلیم سے کئی دور ایک پسماندہ سماج میں جی رہے ہیں۔کیونکہ ترقی کا دارومدار ہی تعلیم پر منحصر ہے۔ترقی یافتہ دنیا میں کمپیوٹر کی جگہ جدید لپ ٹاپ نے لی اور ہم کمپیوٹر اپنی جگہ بغیر استاد کے علم کے نام پر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
اب آتے ہیں اصل مدعا کی طرف۔
گورنمنٹ ہائی سکول ببرشور پسنی واحد ہائی سکول ہے، جہاں لیبارٹری موجود نہیں، کھیلوں کے سامان اپنی جگہ لائبریری اور امتحانی ہال تک موجود نہیں۔میٹرک کے طلبا کو پریکٹیکل کے کلاسز اٹینڈ کرنے کے لئے پسنی کے دیگر اسکولوں میں جانا پڑتا ہے۔ امتحانی ہال نہ ہونے کی وجہ سے اول ادنیٰ سے لیکر ساتویں جماعت تک کے طلبا گراؤند میں بیٹھ کر امتحانی پرچے حل کرنے پر مجبور ہیں۔
پرائمری سیکشن کے چھ کلاسوں کے لئے صرف تین ٹیچرجبکہ پورے مڈل اور ہائی سیکشن کے لئے صرف ایک ایس ایس ٹی ٹیچر ہے۔ سائنس کے مضامین کے لئے استاتذہ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر پیریڈ خالی رہتے ہیں، اور طالب علم صرف آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب ہمارے اسکول کے بنیادی ضروریات پورے کئے جائیں گے۔ ہم صرف حکمرانوں سے ایک مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں تعلیم دو،اور کچھ نہیں۔