|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2020

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری نے اپنے بیان میں گزشتہ روز بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نذیراحمد لانگو پر مشتمل دو رکنی بینچ کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کی تعیناتی کے حوالے سے دائر کیس کی۔

سماعت کے دوران کہ حالیہ کورونا وائرس کی روک تھام کے پیش نظر حکومت مذکورہ پوسٹ پر ایک قابل،ایماندار اور مستند آفیسر تعینات کرنے کے ریمارکس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ آج ہمارا معاشرہ،ملک،انتظامی ادارے اور تمام شعبہ زندگی جس بحرانی کیفیت،افراء تفریح،انارکیت،تضادات،جاری کشمکش،زبوحالی اور پسماندگی کی دلدل کی آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔

اس کا بنیادی وجہ اور سبب ایمانداری،شرط اور میرٹ کو یکسر نظر انداز کرکے رشوت خوری،ناجائز مراعات کے حصول،اقرباء پروری،سفارش کلچر، جھوٹ،فریب،دھوکہ دہی اور غلط بیانی کرنے اورکرپشن کے فروغ وحوصلہ افزائی کرکے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر معاشرے،اداروں،ملک اور قوم کو جس تباہی،بربادی،پسماندگی اور بند گلی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

ایسی قومیں ہر گز تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرسکتے اور نہ قدرتی آفات،وباء ودیگر مشکلات وآنے والے چیلنجز کا صحیح معنوں میں مقابلہ تو کجا سامنا کرنے کی سکت بھی نہیں رکھ سکیں گے کیونکہ یہاں مجموعی طورپر ہر ایک کا اپنا ذاتی آسودگی،ترقی خوشحالی کی فکر لاحق ہے۔

اور وہ معاشرے کی اجتماعی بہتری،فلاح وبہبود،ترقی وخوشحالی سے یکسر لاتعلق اور الگ تلگ ہیں یہی وجہ ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے بے ایمانی کو وہ خطرناک وباء اور مرض کی طرف اشارہ کیاجو بہت تیزی اور فخر کے ساتھ ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آج جن اقوام اورممالک نے ترقی کے تمام منازل عبور کرکے ہر قسم کی وباء،قدرتی آفتوں اور جنگی حالات سے نمٹنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں انہوں نے کبھی بھی بدعنوانی،کرپشن،جھوٹ،فریب،میرٹ کی پامالی،غیر قانونی دولت کاناجائز استعمال،کام چوری۔

خود غرضی،ذاتی مفادات اور گروہی آسودگی کو اپنے قریب سے بھی آنے نہیں دیا،ان کا سوچ،عمل،کردار وگفتار اور زندگی ہمیشہ اپنے ملک اور قوم کی اجتماعی مفاد پر مبنی ہوتاہے انہوں نے کہاکہ افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ قدرتی دولت سے مالامال ملک ہونے پر ہمیں ہر حوالے سے اپنے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے خودکفیل ہوناچاہیے۔

تھا لیکن ہمارے حکمرانوں کی نظریں دیگر ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی امداد،فنڈز اور خیرات کو وصول کرنے پر مرکوز ہیں اور اصل مسئلے کو پس پشت ڈال کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے اقدامات سے اقوام ترقی کی بجائے پسماندگی کی طرف راغب ہونگی،انہوں نے کہاکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

کہ حالات کامقابلہ کرنے والی اور خود کچھ کرسکنے والی اقوام نے ہی اپنے مستقبل کو سنوارا ہے اورآج ترقی کے اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں ہمیں ایک بہت بڑا عرصہ درکار ہوگا کہ ہم اس مقام تک پہنچ سکیں،بہت سے ایسے ممالک ہیں جو ہمارے بعد وجود میں آئے لیکن آج ان کی جی ڈی پی گروتھ،تعلیم،صحت،روزگار،تجارت،کرنسی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ہم سے آگے چلے گئے ہیں۔

لیکن ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے چلے جارہے ہیں،ہمارے حکمرانوں کے پاس اپنے عوام کی ترقی،خوشحالی اور فلاح وبہبود وبہترمستقبل کیلئے لانگ ٹرم پالیسیاں موجود نہیں ہے اور ہم ترقی کی بجائے روز بروز بھوک،افلاس،غربت،جہالت،بے روزگاری،مہنگائی،قرضوں کے شکنجوں کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔