|

وقتِ اشاعت :   April 3 – 2020

محکمہ صحت کے مطابق پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 2386 ہے اور 32 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔کرونا وائرس کے سے اسلام آباد میں 62، پنجاب 922، سندھ 761، خیبرپختونخوا 276، بلوچستان 169، آزاد کشمیر9 اور گلگت بلتستان میں 187 افراد متاثر ہوئے ہیں۔سندھ میں کورونا وائرس کی وجہ سے 10، پنجاب11،خیبرپختونخوا8، بلوچستان1 اور گلگت بلتستان میں دو افرادزندگی کی بازی ہارچکے ہیں۔ پاکستان میں 107 افراد صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔

وزارت صحت کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کیسز میں سے 46 فیصد کا تعلق ایران اور 27 فیصد کا دیگر ممالک سے ہے جبکہ 27 فیصد مریض لوکل ٹرانسمیشن کا نتیجہ ہیں۔پاکستان میں کورونا وائرس آئسولیشن کی سہولیات کے حامل اسپتالوں کی مجموعی تعداد 414 ہے جن میں 6335 بیڈز کی سہولیات موجود ہیں اور ان میں 861 مریض زیر علاج ہیں۔ملک بھرمیں 171 مقامات پر کورنٹائن سینٹر قائم کیے گئے ہیں جن میں 8893 افراد کو رکھا گیا ہے۔ کورونا وائرس کے زیر علاج 10 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم رکھنے کیلئے لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔

ملک میں عوامی اجتماعات پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے۔کورونا وائرس سے تحفظ کیلئے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی چھٹیاں قبل از وقت دی گئی ہیں۔وزیراعظم نے کورونا کے خلاف ریلیف ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا ہے جس کی مدد سے بے روزگار ہونے والے افراد کو گھروں میں راشن پہنچایا جائے گا۔عمران خان نے پرائم منسٹرکورونا ریلیف فنڈ بنانے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ اس میں جمع رقم پرکوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔ بیرون ملک پاکستانی ریلیف فنڈمیں بڑھ چڑھ کرحصہ لیں۔وفاقی حکومت نے غریب خاندانوں کو12 ہزار روپے ماہانہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ملک میں خوراک کی قلت سے نمٹنے کیلئے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ملک کے تمام صوبوں کے درمیان زمینی رابطے منقطع ہیں اور ٹرین سروس بھی غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دی گئی ہے۔

اس وقت 190 سے زائد ممالک اس وباء کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور ہر جگہ ہنگامی صورتحال ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم ہے اور لاک ڈاؤن کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ عوام مزید اس سے متاثر نہ ہوں کیونکہ اس کی تیزی سے پھیلاؤ سے پورا نظام متاثرہو جائے گا۔البتہ موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ اصل مسئلہ جو غریب عوام کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے درپیش ہے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے غریب عوام کیلئے ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا ہے،اسی طرح دیگر سیاسی ومذہبی جماعتیں، فلاحی اداروں سمیت مخیر حضرات بھی راشن تقسیم کررہے ہیں مگر اس میں مزید بہتری لانے کیلئے انہی جماعتوں کے فلاحی اداروں کے مقامی نمائندگان کو اپنے علاقوں میں غریب عوام تک راشن پہنچانے کی ذمہ داری دی جائے۔

جیسا کہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بڑی شاہراہوں پر ہجوم میں راشن تقسیم کیاجارہا ہے اس سے نہ صرف لاک ڈاؤن کا مقصد فوت ہو رہا ہے بلکہ بعض نوسرباز بھی اس کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔لہٰذا مستحق افراد کے گھروں تک راشن کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے تاکہ سفید پوش افراد کے گھروں کا چولہا بھی جلتا ر ہے، یہ اس وقت ممکن ہوگاجب مقامی سطح پر لوگوں کی تفصیلات لی جائیں جس سے راشن کی تقسیم کی شفافیت بھی یقینی ہوجائے گی اور غریب عوام کے مسائل میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی۔