|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2020

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر خان ترین کو آٹا و چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد چیئرمین ٹاسک فورس برائے زراعت کے عہدے سے ہٹا دیا گیاہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف مزید کارروائی چینی و آٹا بحران انکوائری کمیشن کی سفارشات کے بعد ہوگی۔دوسری جانب جہانگیر ترین نے یہ خبر سامنے آنے کے بعد ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا ہے کہ یہ خبر بالکل بھی درست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں کبھی کسی ٹاسک فورس کا چیئرمین رہا ہی نہیں، کوئی مجھے وہ نوٹیفکیشن دکھا سکتا ہے جس میں میری چیئرمین تعیناتی کا ذکر ہو، برائے مہربانی اپنی معلومات درست کرلیں۔قبل ازیں اپنے ایک اور بیان میں جہانگیر ترین نے بتایا کہ میں شوگر انکوائری کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کررہا ہوں، کمیشن میری تین ملز سمیت 10 شوگر ملز کے حوالے سے تحقیقات میں مصروف ہے، ہم سے جو ریکارڈز مانگے جارہے ہیں وہ ہم دے رہے ہیں اور ہم نے اپنے سرور تک بھی رسائی دے دی ہے۔جہانگیر ترین نے کہا کہ ابھی تک کوئی بھی چیز ضبط نہیں کی گئی کیونکہ ہم تمام مطالبات پورے کررہے ہیں۔

ہمارے پاس چھپانے کو کچھ نہیں۔واضح رہے کہ 4 اپریل کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے آٹا و چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تھی۔تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کا نام آتا ہے۔تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی۔

یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میں ملک میں گندم اور چینی بحران کے باعث ان کی قیمتیں بڑھ گئیں تھیں۔وزیراعظم عمران خان نے معاملے کی تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو ذمہ داری سونپی تھی۔ایف آئی اے نے وزیراعظم کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی ہے جس میں تحریک انصاف کے رہنماجہانگیر ترین،وفاقی وزیرخسرو بختیار کے بھائی اورحکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی سمیت شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز کا نام بھی شامل ہے۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کا انتظار کررہے ہیں جو 25 اپریل تک آ جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ ان نتائج کے سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور گروہ (لابی) عوامی مفادات کا خون کر کے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔بہرحال اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ اندرون خانہ بہت کچھ تبدیل ہونے جارہا ہے۔

اس لئے ان اہم ناموں کی فہرست سامنے آئی ہے،بعض حلقے اس اقدام کو سراہا رہے ہیں وہیں اس پر نقطہ چینی بھی جاری ہے کہ گرفتاری عمل میں کیوں نہیں لائی جارہی مگر جس تناظر میں اس تمام رپورٹ کا جائزہ لیاجارہا ہے اس کا کسی بڑی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ واضح ہے کہ ان کمپنیوں کا مارکیٹ میں زیادہ اثر موجود ہے جو یک مشت گندم خریدکر ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر اس کابھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں،ایساپہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی ہوتاآیا ہے۔

بہرحال وزیراعظم عمران خان نے اس کا سختی سے نہ صرف نوٹس لیا تھا بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔ اب 25 اپریل کو فرانزک آڈٹ آنے کے بعد ہی صورتحال واضح ہو گی مگر فی الوقت جو بحث سیاسی تبدیلی کے حوالے سے کی جارہی ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا، حکومت کے اندر بھی کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا البتہ یہ ضرور ہے کہ فرانزک آڈٹ کی مفصل رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد کئے جانے والے فیصلوں کے بعد ہی صورتحال واضح ہوجائے گی۔