|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2020

بلوچستان میں موجود مسائل سے کوئی انکار نہیں کرسکتا جو ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پسماندگی کا شکار ہے اور یہاں کے لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ملک کا نصف حصہ ہونے کے باوجودیہاں شعبوں کی بہتری کیلئے بڑی سرمایہ کاری کسی بھی حکومت نے نہیں کی، انسانی وسائل کی اہمیت کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا جس کی وجہ سے آج تک بلوچستان بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔صحت ایک ایسا شعبہ ہے جس کا تعلق انسانی زندگی سے ہے اور یہی چیز اس کی اہمیت جتانے کے لیے کافی ہے۔

چونکہ یہ واحد ادارہ ہے جو انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے کام کرتا ہے، ویسے ملک بھر میں سرکاری اسپتالوں کی صورتحال کوئی خاص اچھی نہیں مگر کراچی اور لاہورواحد دو بڑے شہر ہیں جہاں پر سرکاری اسپتال ملک کے دیگر بڑے شہروں کی نسبت بہتر ہیں مگر ان سرکاری اسپتالوں میں بہتری لانے کیلئے صوبائی حکومتوں کا کلیدی کردار رہا ہے جبکہ بلوچستان میں صحت کے شعبہ میں ایمرجنسی نافذ ہونے کے باوجود بھی یہاں حالت یہ ہے کہ لوگ عام معمولی بیماریوں کی وجہ سے بھی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں،اسپتالوں میں معمولی علاج تک کیلئے سہولیات دستیاب نہیں، ڈاکٹر اور عملہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے درجنوں نوجوان اور بچے کینسر جیسے موذی مرض کی وجہ سے انتقال کرچکے ہیں ان خاندانوں کی روائیداد سنی جائے تو انسانی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کس کرب سے یہ خاندان گزر ے ہیں جو کراچی کے اسپتالوں میں لاچار وبے بسی سے دوچار ہوکر امداد کے منتظر دکھائی دیتے ہیں، خون عطیہ کے ساتھ علاج کی بڑی رقم چندے سے جمع کی جاتی ہے کیونکہ بلوچستان میں کینسر کے علاج کے حوالے سے کوئی سہولیات نہیں،البتہ ابھی کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں جوکہ موجودہ حکومت کا ایک بہترین کارنامہ ہے مگر حالیہ کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد دوبارہ صحت کے مراکز میں مسائل سراٹھارہے ہیں۔

کوئٹہ کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر حفاظتی کٹس نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہیں کیونکہ اب تک دس سے زائد ڈاکٹر کورونا کے مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں جس سے ڈاکٹربرادری میں تشویش بڑھ گئی ہے۔اس حوالے سے گزشتہ روز ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن کی جانب سے وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا جس کے بعد ان پر لاٹھی چارج کی گئی اور درجنوں ڈاکٹروں کو گرفتار کرکے کوئٹہ کے مختلف تھانوں میں منتقل کیا گیا جن کی رہائی کے احکامات جاری ہونے کے باوجود ڈاکٹروں نے انکار کیا کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جائینگے وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔

اسی طرح ڈاکٹروں نے احتجاجاََ سرکاری اسپتالوں میں کام بند کررکھا ہے مگر اس کا براہ راست اثر بلوچستان کے غریب عوام پر پڑ رہا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر برادری کو اپنے جائزمطالبات کیلئے احتجاج کرنا چاہئے مگروہ اس حد تک نہ جائیں جس سے غریب عوام کی مشکلات بڑھ جائیں کیونکہ اس ہڑتال کی وجہ سے غریب مریض رُل گئے ہیں جو پرائیویٹ اور نجی کلینکس میں علاج کی سکت نہیں رکھتے، اس پر ہمارے ڈاکٹروں کو توجہ دینی چاہئے۔

جہاں تک حفاظتی کٹس اور ڈاکٹروں کی مستقلی کا معاملہ ہے تو اسے حکومت حل کرے،اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان کا شعبہ صحت مختلف مافیاز کے ہاتھ میں رہا ہے، ایم ایس ڈی،سینئر ڈاکٹروں، پروفیسروں، بیورو کریسی اور سیاست دانوں کی شکل میں مافیا میڈیکل سپلائی اور ٹرانسفر پوسٹنگ پر کنٹرول چاہتا ہے، ینگ ڈاکٹر اس مافیا کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں انہیں الزام نہیں دیا جا سکتا، میں نے ذاتی طور پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن سے نشست کی، ینگ ڈاکٹرز کے کنٹریکٹ،ڈاکٹروں کے مسائل کے حل اور نئی اسامیاں مشتہر کرنے کی یقین دہانی کرائی، وائی ڈی اے کی جانب سے ایم ایس کے دفاتر کی تالہ بندی غیر مناسب عمل ہے۔


وزیراعلی بلوچستان کا کہنا ہے کہ کابینہ نے گزشتہ روز اپنے اجلاس میں شعبہ صحت کیلئے 1400 سے زائد اسامیوں کی منظوری دی، اگر حکومت سنجیدہ نہ ہوتی تو خالی اسامیوں پر بھرتی کی منظوری بھی نہ دیتی، ہم نے جو وعدہ کیا اور جسکی ضرورت بھی تھی اسے پورا کیا، وائی ڈی اے برائے مہربانی کسی کیلئے استعمال نہ ہو۔دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹرز پرلاٹھی چارج کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے،جب تک تشدد کرنے والے پولیس افسران کے خلاف کارروائی اور سیکرٹری صحت کو معطل نہیں کیا جاتا،مذاکرات نہیں ہونگے،حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے بلکہ کورونا کو دعوت دے رہی ہے۔

ڈاکٹروں نے سرکاری ہسپتالوں کے لیبر رومز،شعبہ حادثات، ایمرجنسی اور وارڈز میں کام چھوڑدیا ہے۔بہرحال اس وقت پوری دنیا ایک خطرناک وباء سے دوچار ہے اور سب کی توجہ اس وقت صحت کے مراکز پرمرکوز ہے کہ وہاں ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ہنگامی حالات سے نمٹاجاسکے،اسی طرح حکومت بلوچستان کو بھی معاملے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے ڈاکٹروں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنا چاہئے جبکہ ڈاکٹروں کو بھی چاہئے کہ وہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالیں چونکہ بعض مطالبات کے حل کیلئے وقت درکار ہوتا ہے جس کیلئے انتظار کرنا چائیے تاکہ معاملات دوستانہ ماحول میں حل ہوں جو کہ صوبہ کے وسیع ترمفاد میں ہوگا، بلوچستان کے عوام کو ایک طرف کینسر جیسا موذی مرض نگل رہا ہے، اب کورونا سروں پر منڈلارہا ہے لہٰذا غریب صوبہ کے لاچار عوام کیلئے بھی سوچاجائے جوکہ ہر وقت مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔