|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2020

ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤسے قبل بعض اقدامات اٹھانا انتہائی ضروری تھے مگر بروقت اس پر توجہ نہیں دی گئی خاص کرتفتان پر مکمل توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تھی جب ہزاروں کی تعداد میں ایران سے لوگوں کی آمد یقینی تھی۔ البتہ اس وقت وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، معاون خصوصی وزیراعظم بھی کوئٹہ دورہ پر آئے تھے جبکہ معاون خصوصی ڈاکٹرظفر مرزا نے تفتان کا بھی دورہ کیا تھا اور تمام تر صورتحال اس وقت واضح تھی جہاں پر صحت کے حوالے سے انتظامات اور ملک کے بہترین ڈاکٹرز اور عملہ کو تعینات کرتے ہوئے تمام ضروری سہولیات فراہم کرتے ہوئے لوگوں کے ٹیسٹنگ کا عمل پورا کیاجاسکتا تھا جس سے یہ فائدہ ہوتا کہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن جیسی صورتحال شاید اس طرح پیدا نہ ہوتی جس کا اب سامنا کرناپڑرہا ہے۔

اگر دیکھاجائے تو بلوچستان میں کیسز کی شرح اتنی نہیں ہے کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت مریضوں کی تعداد کم ہے۔ بہرحال اس کے بعد بھی اجتماعات پر خاص توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس طرح کی آگاہی مہم صوبائی حکومتوں کی جانب سے کی گئی جس سے بروقت اس عالمی وباء کو کنٹرول کیاجاسکتا تھا چونکہ اب صورتحال یکدم سے تبدیل گئی ہے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے جس کے پھیلاؤ کے خدشات کا بھی اظہار کیاجارہا ہے مگر دنیا میں جس طرح سے اموات ہوئی ہیں فی الحال پاکستان اس خطرناک صورتحال سے محفوظ ہے اور خدا کرے کہ آنے والے وقت میں بھی اس کی شرح کم رہے مگر اس کیلئے اقدامات سمیت سہولیات کی فراہمی پر زور دینا ہوگا کیونکہ عوام پر اس وقت زیادہ بوجھ ہے جہاں انہیں وباء سے متاثر ہونے کے خطرات موجود ہیں، وہیں معاشی ابتر صورتحال سے بھی دوچار ہونا پڑرہاہے جو زیادہ دنوں تک غریب عوام برداشت نہیں کرسکتی۔ ملک بھر میں لوگوں کے ذریعہ معاش کا انحصارروزانہ کی اجرت یا پھر پرائیویٹ ملازمتوں پر ہے۔

لاک ڈاؤن سے دونوں ہی شعبوں سے جڑے افراد متاثر ہورہے ہیں،گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑرہے ہیں جگہ جگہ احتجاج بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ خوردنی اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں چونکہ بڑے پیمانے پر اشیاء خوردونوش کی خریداری حکومت اور فلاحی ادارے کررہے ہیں جس کیلئے کوئی میکنزم تیا رنہیں کیاجارہا کہ اتنے بڑے پیمانے پر خریداری سے عام لوگوں کیلئے مشکلات بڑھ جائینگی جب اشیاء کی قلت پیدا ہوگی لہٰذا اس جانب بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں پر کورونا وائرس کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔

اس دوران وزیراعلیٰ بلوچستان نے اب تک اٹھائے گئے اقدامات اور کوروناوائرس کے حوالے سے جڑے دیگر معاملات پر وزیراعظم کو بریفنگ دی، اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ 14 اپریل کے بعد صوبے خود فیصلہ کریں گے کہ کون کون سے سیکٹرز کھولنے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ عوام کی معاشی مشکلات حل کرنے کیلئے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ کوروناسے نمٹنے کیلئے بلوچستان حکومت اقدامات کررہی ہے،کورونا وائرس کی صورتحال کا مل کر مقابلہ کریں گے۔وفاق اور صوبوں کے درمیان مکمل کوآرڈینیشن چل رہی ہے،وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں کورونا کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی صورتحال پاکستان سے ملتی جلتی ہے۔ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کیلئے حفاظتی سامان کی فراہمی کو یقینی بنارہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ دنیا بھرمیں حفاظتی سامان اور ٹیسٹنگ کٹس کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ دباؤ طبی عملے پر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ بلوچستا ن میں کورونا کا کوئی مریض آئی سی یو میں نہیں۔ اپریل کے آخر تک اسپتالوں پر دباؤ بڑھ جائے گا ہرصوبے کواپنی صورتحال دیکھ کر تیاری کرنا پڑے گی۔عمران خان نے کہا کہ غربت کے باعث بلوچستان زیادہ متاثرہوگا۔ بلوچستان میں زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ کورونا کیخلاف صوبائی اور وفاقی حکومت رابطے میں ہیں۔ کورونا کیخلاف ہم اکیلے نہیں لڑسکتے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کمانڈ اینڈ کنٹرول پروگرام سے روزانہ کی بنیاد پر معلومات عوام تک پہنچائی جارہی ہیں۔دنیا بھر میں کورونا کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔

مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن کے بعد مارکیٹیں کھلنے لگی ہیں۔اس سے قبل وزیراعظم کو صوبہ بلوچستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی نگہداشت، زائرین کی سہولت کے لئے کیے گئے انتظامات، اشیائے خوردونوش کی بلا تعطل فراہمی، ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لیے حفاظتی کٹس کی فراہمی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بریفنگ دی گئی۔صوبائی حکومت کی جانب سے موجودہ اور مستقبل کے ریلیف پیکیج، راشن کی صوبے کی مستحق عوام میں تقسیم، پارلیمنٹیرینز کی جانب سے کورونا فنڈ کا قیام، صحت کے عملہ کے لیے مختلف نوعیت کے استثنیٰ اور مختلف مقامات پر جاری ڈس انفیکشن (جراثیم کش) مہم کے حوالے سے لیے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔وزیراعظم عمران خان نے صوبے میں اشیائے خوردونوش کی بلا تعطل فراہمی، اور صوبے میں معاشی سرگرمیوں کی روانی، روزگار کے مواقعوں کی فراہمی اور غربت میں کمی کے حوالے سے ایک موثر اور مربوط حکمت عملی مرتب کرنے اور اس حکمت عملی کا مسلسل جائزہ لینے کی اہمیت پر زور دیا۔

عمران خان نے کہا کہ اس ضمن میں مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین پر مشتمل ایک تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے۔ اس تھنک ٹینک کی ترجیح ان افراد کی کفالت اور فلاح و بہبود کے حوالے سے اقدامات کی سفارش ہو جو لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔وزیراعظم نے زراعت کے فروغ اور کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کے حوالے سے رعایات دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے این ایف سی ایوارڈ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے اس کی اجراء اور وفاقی سطح پر اجلاس منعقد کرنے کا کہا۔

یقینا اس سے صوبوں کو درپیش مسائل میں کمی آئے گی کیونکہ بلوچستان کا بجٹ پہلے سے ہی خسارہ میں جاتا ہے اور اس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اگر این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے وفاقی حکومت کردار ادا کرے تو بلوچستان حکومت مشکل وقت میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے بہترین طریقہ سے منصوبہ بندی کرسکتی ہے امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے اس مشورہ پر غور کیاجائے گا جس سے صرف بلوچستان نہیں بلکہ دیگر صوبوں کو بھی براہ راست فائدہ پہنچے گا جوکہ اس وقت مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس بحرانی کیفیت کے دوران ایک اچھا مشورہ دیا ہے کہ وفاقی حکومت جلد این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے اجلاس منعقد کرکے پیشرفت کرے تاکہ صوبوں کو آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے میں آسانی ہو۔